(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا هشام بن الغاز، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال:" هبطنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثنية اذاخر فحضرت الصلاة يعني فصلى إلى جدار، فاتخذه قبلة ونحن خلفه، فجاءت بهمة تمر بين يديه فما زال يدارئها حتى لصق بطنه بالجدار ومرت من ورائه"، او كما قال مسدد. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَعْنِي فَصَلَّى إِلَى جِدَارٍ، فَاتَّخَذَهُ قِبْلَةً وَنَحْنُ خَلْفَهُ، فَجَاءَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا حَتَّى لَصَقَ بَطْنَهُ بِالْجِدَارِ وَمَرَّتْ مِنْ وَرَائِهِ"، أَوْ كَمَا قَالَ مُسَدَّدٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اذاخر ۱؎ کی گھاٹی میں اترے تو نماز کا وقت ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ کے پیچھے تھے، اتنے میں بکری کا ایک بچہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دفع کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ دیوار میں چپک گیا، وہ سامنے سے نہ جا سکے، آخر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے ہو کر چلا گیا، مسدد نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8811، ألف)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 196) (حسن صحیح)»
Amr bin Shuaib reported from his father on the authority of his grand-father: We came down from the mountain pass of Adhaakhir in the company of the Messenger of Allah ﷺ. The time of prayer came and he prayed facing a direction of prayer, and we were (standing) behind him. Then a kid came and passed in front of him. He kept on stopping it until he brought his stomach near the wall (to detain it), and at last it passed behind him, or as Musaddad said.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 708
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا ابن نمير، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج يوم العيد امر بالحربة فتوضع بين يديه فيصلي إليها والناس وراءه، وكان يفعل ذلك في السفر، فمن ثم اتخذها الامراء". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ أَمَرَ بِالْحَرْبَةِ فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ مبارک کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 90 (494)، والعیدین 13 (972)، 14 (973)، صحیح مسلم/الصلاة 47 (501)، تحفةالأشراف (7940)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/العیدین 9 (1566)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 164 (1305)، مسند احمد (2/98، 142، 145، 151)، سنن الدارمی/ الصلاة 124 (1450) (صحیح)»
وضاحت: یعنی امراء و حکام لوگ جو عید وغیرہ کے موقع پر بھالا نیزہ وغیرہ لے کر نکلنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کی اصل یہی ہے۔ نماز فرض ہو یا نفل، سفر ہو یا حضر، ہر موقع پر سترے کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔
Ibn Umar said: When the Messenger of Allah ﷺ would go out (for prayer) on the day ofEidd, he ordered to bring a lance, it was then setup in front of him and he would pray in its direction, and the people (stood) behind him. He used to do so during journey ; hence the rulers would take it (lance with them).
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 687
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (494) صحيح مسلم (501)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بکری کا بچہ آپ کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دور کرنے لگے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6546)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 39 (953)، مسند احمد (1/291، 341) (صحیح)»