(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت عبد الله بن يزيد الخطمي يخطب الناس، قال: حدثنا البراء وهو غير كذوب،" انهم كانوا إذا رفعوا رءوسهم من الركوع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قاموا قياما، فإذا راوه قد سجد سجدوا". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الْخَطْمِيَّ يَخْطُبُ النَّاسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ وَهُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ،" أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ مِنَ الرُّكُوعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامُوا قِيَامًا، فَإِذَا رَأَوْهُ قَدْ سَجَدَ سَجَدُوا".
براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ... اور وہ جھوٹے نہ تھے ... کہ لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سروں کو رکوع سے اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے، پھر جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے کہ آپ سجدے میں چلے گئے ہیں، تب سجدہ میں جاتے۔
وضاحت: مقتدی کو امام کی اقتداء کا ادب بتایا گیا ہے کہ جب امام رکوع میں چلا جائے تب مقتدی رکوع کریں۔ اسی طرح جب امام سر اٹھائے تب سر اٹھائیں اور جب وہ اپنی پیشانی زمین پر رکھ چکے تب سجدہ کریں اور مقتدی کا اپنے امام سے پیچھے رہنا واجب ہے۔
Al-Bara who is not a liar said; when they (the companions) raised their heads from bowing along with the Messenger of Allah ﷺ, they would stand up, and when they saw him that he went down in prostration, they would prostrate (following the prophet).
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 620
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (747) صحيح مسلم (474)
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رکوع اور سجود میں تم مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں رکوع کرنے میں تم سے جس قدر آگے ہوں گا، میرے سر اٹھانے پر تمہاری یہ تلافی ہو جائے گی (کہ تم اتنا یہ تاخیر سے سر اٹھاؤ گے) بلاشبہ میں کسی قدر بھاری ہو گیا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 41 (963)، (تحفة الأشراف: 11426)، وقد أخرجہ: حم(4/92، 98)، سنن الدارمی/الطھارة 72 (782) (حسن صحیح)»
وضاحت: یہاں جسمانی طور پر بھاری پن کے اظہار سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب، نماز کے ارکان کی ادائیگی میں اعتدال و توازن ہے۔ یعنی میرے سر اٹھانے تک تم رکوع ہی میں رہو، یہ عوض ہو جائے گا اس مدت کا جو تم میرے بعد رکوع میں گئے تھے۔
Narrated Muawiyah ibn Abu Sufyan: The Prophet ﷺ said: Do not try to outstrip me in bowing and prostrating because however earlier I bow you will join me when I raise (my head from bowing); I have become bulky.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 619
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن صححه ابن حبان (الإحسان: 2226، 2227) وسنده حسن، وللحديث شواھد
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص اس وقت تک اپنی پیٹھ نہیں جھکاتا جب تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (زمین پر اپنی پیشانی رکھتے ہوئے) نہ دیکھ لیتا۔
وضاحت: مقتدی کو امام کی اقتداء کا ادب بتایا گیا ہے کہ جب امام رکوع میں چلا جائے تب مقتدی رکوع کریں۔ اسی طرح جب امام سر اٹھائے تب سر اٹھائیں اور جب وہ اپنی پیشانی زمین پر رکھ چکے تب سجدہ کریں اور مقتدی کا اپنے امام سے پیچھے رہنا واجب ہے۔