(مرفوع) حدثنا زهير بن حرب، حدثنا وكيع، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا مات صاحبكم فدعوه ولا تقعوا فيه". (مرفوع) حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ وَلَا تَقَعُوا فِيهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارا ساتھی (یعنی مسلمان جس کے ساتھ تم رہتے سہتے ہو) مر جائے تو اسے چھوڑ دو ۱؎ اس کے عیوب نہ بیان کرو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17282)، وقد أخرجہ: الرقاق 42 (6516)، سنن النسائی/الجنائز 52 (1938)، مسند احمد (6/180) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے سلسلہ میں کوئی ایسی بات نہ کہو جس سے اگر وہ زندہ ہوتا تو اسے تکلیف ہوتی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر اگر اس لیے کیا جائے تاکہ لوگ اس سے بچیں اور عبرت حاصل کریں تو جائز ہے، اسی طرح سے ضعیف اور مجروح رواۃ حدیث پر جرح و تنفید بھی باتفاق علماء جائز ہے، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ، اس لیے کہ اس کا مقصد عقیدہ، علم، اور حدیث کی خدمت و حفاظت ہے۔