(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا ثور بن يزيد، قال: حدثني خالد بن معدان، قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي، وحجر بن حجر، قالا:" اتينا العرباض بن سارية، وهو ممن نزل فيه: ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه سورة التوبة آية 92، فسلمنا، وقلنا: اتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين، فقال العرباض" صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم اقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله كان هذه موعظة مودع، فماذا تعهد إلينا؟ فقال:اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا:" أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ: وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ سورة التوبة آية 92، فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ:أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ".
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه»۱؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/العلم 16 (2676)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 6 (43، 44)، (تحفة الأشراف: 9890)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/126)، سنن الدارمی/المقدمة 16 (96) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سوار کرائیں یعنی جہاد کے لئے سواری فراہم کریں تو آپ ان سے کہتے ہیں: میرے پاس تمہارے لئے سواری نہیں“(سورۃ التوبۃ: ۹۲)۔ ۲؎: اس حدیث میں ہر اس نئی بات سے جس کی شرع سے کوئی اصل نہ ملے منع کیا گیا ہے، اصول شریعت چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع صحیح اور قیاس شرعی، جو بات ان چار اصول میں نہ ہو وہ بدعت ہے، بدعت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک بدعت شرعی دوسری بدعت لغوی، اس حدیث میں بدعت شرعی کا ہی بیان ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے، بعض سلف سے جو بعض بدعات کے سلسہ میں تحسین منقول ہے وہ بدعت لغوی کے سلسلہ میں ہے ناکہ بدعت شرعی کے بارے میں؛ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح با جماعت کے لئے فرمایا: «إن كانت هذه بدعة فنعمت البدعة» یعنی اگر یہ نئی چیز ہے تو کتنی اچھی ہے، بدعت شرعیہ کی کوئی قسم بدعت حسنہ نہیں، البتہ سنت حسنہ ہی ہوتی ہے، «سنة الخلفاء الراشدين» سے درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت مراد ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی وجہ سے شہرت حاصل نہ ہو سکی، اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں رواج پذیر اور مشہور ہوئی اس بنا پر ان کی طرف منسوب ہوئی (أشعة اللمعات، للدهلوي) نیز اگر خلفاء راشدین کسی بات پر متفق ہوں تو اس حدیث کے بموجب ان کی سنت ہمارے لئے سنت ہے۔
Narrated Irbad ibn Sariyah: Abdur Rahman ibn Amr as-Sulami and Hujr ibn Hujr said: We came to Irbad ibn Sariyah who was among those about whom the following verse was revealed: "Nor (is there blame) on those who come to thee to be provided with mounts, and when thou saidst: "I can find no mounts for you. " We greeted him and said: We have come to see you to give healing and obtain benefit from you. Al-Irbad said: One day the Messenger of Allah ﷺ led us in prayer, then faced us and gave us a lengthy exhortation at which the eyes shed tears and the hearts were afraid. A man said: Messenger of Allah! It seems as if it were a farewell exhortation, so what injunction do you give us? He then said: I enjoin you to fear Allah, and to hear and obey even if it be an Abyssinian slave, for those of you who live after me will see great disagreement. You must then follow my sunnah and that of the rightly-guided caliphs. Hold to it and stick fast to it. Avoid novelties, for every novelty is an innovation, and every innovation is an error.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4590
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (165) أخرجه الترمذي (2676 وسنده صحيح)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے“۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 5 (2697)، صحیح مسلم/الأقضیة 8 (1718)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (14)، (تحفة الأشراف: 17455)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/73، 146، 180، 240، 256، 270) (صحیح)»
Aishah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: if any one introduces into this affair of ours anything which does not belong to it, it is rejected. Ibn Isa said: the prophet ﷺ said: if anyone practices any action in away other than our practice, it is rejected.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4589
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2697) صحيح مسلم (1718)