(مرفوع) حدثنا احمد بن إسحاق الاهوازي ، حدثنا ابو احمد ، حدثنا بشير بن المهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنا اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم نتحدث:" ان الغامدية، وماعز بن مالك لو رجعا بعد اعترافهما، او قال: لو لم يرجعا بعد اعترافهما لم يطلبهما، وإنما رجمهما عند الرابعة" . (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاق الْأَهْوَازِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَحَدَّثُ:" أَنَّ الْغَامِدِيَّةَ، وَمَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ لَوْ رَجَعَا بَعْدَ اعْتِرَافِهِمَا، أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ يَرْجِعَا بَعْدَ اعْتِرَافِهِمَا لَمْ يَطْلُبْهُمَا، وَإِنَّمَا رَجَمَهُمَا عِنْدَ الرَّابِعَةِ" .
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا ذکر کیا کرتے تھے کہ غامدیہ ۱؎ اور ماعز بن مالک رضی اللہ عنہما دونوں اگر اقرار سے پھر جاتے، یا اقرار کے بعد پھر اقرار نہ کرتے تو آپ ان دونوں کو سزا نہ دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اس وقت رجم کیا جب وہ چار چار بار اقرار کر چکے تھے (اور ان کے اقرار میں کسی طرح کا کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1948) (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: قبیلہ غامد کی ایک عورت جسے زنا کی وجہ سے رجم کیا گیا تھا۔
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: We, the Companions of the Messenger of Allah ﷺ, used to talk mutually: Would that al-Ghamidiyyah and Maiz ibn Malik had withdrawn after their confession; or he said: Had they not withdrawn after their confession, he would not have pursued them (for punishment). He had them stoned after the fourth (confession).
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4420
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن بشير بن المھاجر حسن الحديث
(مرفوع) حدثنا محمد بن سليمان الانباري، حدثنا وكيع، عن هشام بن سعد، قال: حدثني يزيد بن نعيم بن هزال، عن ابيه، قال:" كان ماعز بن مالك يتيما في حجر ابي فاصاب جارية من الحي، فقال له ابي: ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره بما صنعت لعله يستغفر لك، وإنما يريد بذلك رجاء ان يكون له مخرجا، فاتاه، فقال: يا رسول الله إني زنيت فاقم علي كتاب الله، فاعرض عنه فعاد، فقال: يا رسول الله إني زنيت فاقم علي كتاب الله، فاعرض عنه فعاد، فقال: يا رسول الله إني زنيت فاقم علي كتاب الله، حتى قالها اربع مرار، قال صلى الله عليه وسلم: إنك قد قلتها اربع مرات، فبمن؟ قال: بفلانة، فقال: هل ضاجعتها؟ قال: نعم، قال: هل باشرتها؟ قال: نعم، قال: هل جامعتها؟ قال: نعم، قال: فامر به ان يرجم فاخرج به إلى الحرة، فلما رجم فوجد مس الحجارة جزع، فخرج يشتد فلقيه عبد الله بن انيس وقد عجز اصحابه، فنزع له بوظيف بعير فرماه به فقتله، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له فقال: هلا تركتموه لعله ان يتوب فيتوب الله عليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ هَزَّالٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كَانَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي فَأَصَابَ جَارِيَةً مِنَ الْحَيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْهُ بِمَا صَنَعْتَ لَعَلَّهُ يَسْتَغْفِرُ لَكَ، وَإِنَّمَا يُرِيدُ بِذَلِكَ رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ لَهُ مَخْرَجًا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَعَادَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَعَادَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ، حَتَّى قَالَهَا أَرْبَعَ مِرَارٍ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ قَدْ قُلْتَهَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَبِمَنْ؟ قَالَ: بِفُلَانَةٍ، فَقَالَ: هَلْ ضَاجَعْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ بَاشَرْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ جَامَعْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ فَأُخْرِجَ بِهِ إِلَى الْحَرَّةِ، فَلَمَّا رُجِمَ فَوَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ جَزِعَ، فَخَرَجَ يَشْتَدُّ فَلَقِيَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ وَقَدْ عَجَزَ أَصْحَابُهُ، فَنَزَعَ لَهُ بِوَظِيفِ بَعِيرٍ فَرَمَاهُ بِهِ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ لَعَلَّهُ أَنْ يَتُوبَ فَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَيْهِ".
نعیم بن ہزال بن یزید اسلمی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد کی گود میں ماعز بن مالک یتیم تھے محلہ کی ایک لڑکی سے انہوں نے زنا کیا، ان سے میرے والد نے کہا: جاؤ جو تم نے کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو، ہو سکتا ہے وہ تمہارے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں، اس سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے کوئی سبیل نکلے چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے زنا کر لیا ہے مجھ پر اللہ کی کتاب کو قائم کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنا چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوبارہ آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے زنا کر لیا ہے، مجھ پر اللہ کی کتاب کو قائم کیجئے، یہاں تک کہ ایسے ہی چار بار انہوں نے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم چار بار کہہ چکے کہ میں نے زنا کر لیا ہے تو یہ بتاؤ کہ کس سے کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: فلاں عورت سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس کے ساتھ سوئے تھے؟“ ماعز نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اس سے چمٹے تھے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے اس سے جماع کیا تھا؟“ انہوں نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم (سنگسار) کئے جانے کا حکم دیا، انہیں حرہ ۱؎ میں لے جایا گیا، جب لوگ انہیں پتھر مارنے لگے تو وہ پتھروں کی اذیت سے گھبرا کے بھاگے، تو وہ عبداللہ بن انیس کے سامنے آ گئے، ان کے ساتھی تھک چکے تھے، تو انہوں نے اونٹ کا کھر نکال کر انہیں مارا تو انہیں مار ہی ڈالا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ان سے اسے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا ۲؎، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف: 11652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/217) (صحیح)» آخری ٹکڑا: «لعله أن يتوب...» صحیح نہیں ہے
وضاحت: ۱؎: مدینہ کے قریب ایک سیاہ پتھریلی جگہ ہے اس وقت شہر میں داخل ہے۔ ط ۲؎: کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اقرار سے مکر جاتا اور اس سزا سے بچ جاتا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول «هلا تركتموه» اس بات کی دلیل ہے کہ اقرار کرنے والا اگر بھاگنے لگ جائے تو اسے مارنا بند کر دیا جائے گا، پھر اگر وہ بصراحت اپنے اقرار سے پھر جائے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ورنہ رجم کر دیا جائے گا یہی قول امام شافعی اور امام احمد کا ہے۔
Narrated Nuaym ibn Huzzal: Yazid ibn Nuaym ibn Huzzal, on his father's authority said: Maiz ibn Malik was an orphan under the protection of my father. He had illegal sexual intercourse with a slave-girl belonging to a clan. My father said to him: Go to the Messenger of Allah ﷺ and inform him of what you have done, for he may perhaps ask Allah for your forgiveness. His purpose in that was simply a hope that it might be a way of escape for him. So he went to him and said: Messenger of Allah! I have committed fornication, so inflict on me the punishment ordained by Allah. He (the Prophet) turned away from him, so he came back and said: Messenger of Allah! I have committed fornication, so inflict on me the punishment ordained by Allah. He (again) turned away from him, so he came back and said: Messenger of Allah! I have committed fornication, so inflict on me the punishment ordained by Allah. When he uttered it four times, the Messenger of Allah ﷺ said: You have said it four times. With whom did you commit it? He replied: With so and so. He asked: Did you lie down with her? He replied: Yes. He asked: Had your skin been in contact with hers? He replied. Yes. He asked: Did you have intercourse with her? He said: Yes. So he (the Prophet) gave orders that he should be stoned to death. He was then taken out to the Harrah, and while he was being stoned he felt the effect of the stones and could not bear it and fled. But Abdullah ibn Unays encountered him when those who had been stoning him could not catch up with him. He threw the bone of a camel's foreleg at him, which hit him and killed him. They then went to the Prophet ﷺ and reported it to him. He said: Why did you not leave him alone. Perhaps he might have repented and been forgiven by Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4405
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله لعله أن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3565، 3581) انظر الحديث السابق (4377)
(مرفوع) حدثنا عبدة بن عبد الله، ومحمد بن داود بن صبيح، قال عبدة: اخبرنا حرمي بن حفص، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن علاثة،حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز، ان خالد بن اللجلاج حدثه، ان اللجلاج اباه اخبره،" انه كان قاعدا يعتمل في السوق فمرت امراة تحمل صبيا فثار الناس معها وثرت فيمن ثار، فانتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: من ابو هذا معك؟ فسكتت، فقال شاب حذوها: انا ابوه يا رسول الله، فاقبل عليها، فقال: من ابو هذا معك؟ قال الفتى: انا ابوه يا رسول الله، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بعض من حوله يسالهم عنه، فقالوا: ما علمنا إلا خيرا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: احصنت؟ قال: نعم، فامر به فرجم، قال: فخرجنا به فحفرنا له حتى امكنا ثم رميناه بالحجارة حتى هدا، فجاء رجل يسال عن المرجوم فانطلقنا به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلنا: هذا جاء يسال عن الخبيث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لهو اطيب عند الله من ريح المسك، فإذا هو ابوه فاعناه على غسله وتكفينه ودفنه، وما ادري؟ قال: والصلاة عليه ام لا؟"، وهذا حديث عبدة وهو اتم. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ صَبِيحٍ، قَالَ عَبْدَةُ: أَخْبَرَنَا حَرَمِيُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ اللَّجْلَاجِ حَدَّثَهُ، أَنَّ اللَّجْلَاجَ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا يَعْتَمِلُ فِي السُّوقِ فَمَرَّتِ امْرَأَةٌ تَحْمِلُ صَبِيًّا فَثَارَ النَّاسُ مَعَهَا وَثُرْتُ فِيمَنْ ثَارَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: مَنْ أَبُو هَذَا مَعَكِ؟ فَسَكَتَتْ، فَقَالَ شَابٌّ حَذْوَهَا: أَنَا أَبُوهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: مَنْ أَبُو هَذَا مَعَكِ؟ قَالَ الْفَتَى: أَنَا أَبُوهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَعْضِ مَنْ حَوْلَهُ يَسْأَلُهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَا عَلِمْنَا إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْصَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ، قَالَ: فَخَرَجْنَا بِهِ فَحَفَرْنَا لَهُ حَتَّى أَمْكَنَّا ثُمَّ رَمَيْنَاهُ بِالْحِجَارَةِ حَتَّى هَدَأَ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ عَنِ الْمَرْجُومِ فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: هَذَا جَاءَ يَسْأَلُ عَنِ الْخَبِيثِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَهُوَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، فَإِذَا هُوَ أَبُوهُ فَأَعَنَّاهُ عَلَى غُسْلِهِ وَتَكْفِينِهِ وَدَفْنِهِ، وَمَا أَدْرِي؟ قَالَ: وَالصَّلَاةِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟"، وَهَذَا حَدِيثُ عَبْدَةَ وَهُوَ أَتَمُّ.
خالد بن لجلاج کا بیان ہے کہ ان کے والد الجلاج نے انہیں بتایا کہ وہ بیٹھے بازار میں کام کر رہے تھے اتنے میں ایک عورت ایک لڑکے کو لیے گزری تو لوگ اس کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ان اٹھنے والوں میں میں بھی تھا، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا آپ اس سے پوچھ رہے تھے: ”اس بچہ کا باپ کون ہے؟“ وہ عورت چپ تھی، ایک نوجوان جو اس کے برابر میں تھا بولا: اللہ کے رسول! میں اس کا باپ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: ”اس بچے کا باپ کون ہے؟“ تو نوجوان نے پھر کہا: اللہ کے رسول! میں اس کا باپ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے کسی کی طرف دیکھا، آپ ان سے اس نوجوان کے متعلق دریافت فرما رہے تھے؟ تو لوگوں نے کہا: ہم تو اسے نیک ہی جانتے ہیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تم شادی شدہ ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، اس میں ہے کہ ہم اس کو لے کر نکلے اور ایک گڑھے میں اسے گاڑا پھر پتھروں سے اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس رجم کئے گئے شخص کے متعلق پوچھنے لگا، تو اسے لے کر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور ہم نے کہا: یہ اس خبیث کے متعلق پوچھ رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے“ پھر پتا چلا کہ وہ اس کا باپ تھا ہم نے اس کے غسل اور کفن دفن میں اس کی مدد کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے ”اور اس پر نماز پڑھنے میں بھی (مدد کی) کہا یا نہیں“ یہ عبدہ کی روایت ہے، اور زیادہ کامل ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11171)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/479) (حسن الإسناد)»
Narrated Al-Lajlaj al-Amiri: I was working in the market. A woman passed carrying a child. The people rushed towards her, and I also rushed along with them. I then went to the Prophet ﷺ while he was asking: Who is the father of this (child) who is with you? She remained silent. A young man by her side said: I am his father, Messenger of Allah! He then turned towards her and asked: Who is the father of this child with you? The young man said: I am his father, Messenger of Allah! The Messenger of Allah ﷺ then looked at some of those who were around him and asked them about him. They said: We only know good (about him). The Prophet ﷺ said to him: Are you married? He said: Yes. So he gave orders regarding him and he was stoned to death. He (the narrator) said: We took him out, dug a pit for him and put him in it. We then threw stones at him until he died. A man then came asking about the man who was stoned. We brought him to the Prophet ﷺ and said: This man has come asking about the wicked man. The Messenger of Allah ﷺ said: He is more agreeable than the fragrance of musk in the eyes of Allah. The man was his father. We then helped him in washing, shrouding and burying him. (The narrator said: ) I do not know whether he said or did not say "in praying over him. " This is the tradition of Abdah, and it is more accurate.
USC-MSA web (English) Reference: Book 39 , Number 4421