سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
124. باب التَّيَمُّمِ
124. باب: تیمم کا بیان۔
Chapter: The Tayammum.
حدیث نمبر: 317
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، اخبرنا ابو معاوية. ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة، اخبرنا عبدة المعنى واحد، عن هشام بن عروة،عن ابيه، عن عائشة، قالت:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم اسيد بن حضير واناسا معه في طلب قلادة اضلتها عائشة، فحضرت الصلاة فصلوا بغير وضوء، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فذكروا ذلك له، فانزلت آية التيمم"، زاد ابن نفيل، فقال لها اسيد بن حضير: يرحمك الله، ما نزل بك امر تكرهينه إلا جعل الله للمسلمين ولك فيه فرجا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ وَأُنَاسًا مَعَهُ فِي طَلَبِ قِلَادَةٍ أَضَلَّتْهَا عَائِشَةُ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ"، زَادَ ابْنُ نُفَيْلٍ، فَقَالَ لَهَا أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: يَرْحَمُكِ اللَّهُ، مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ وَلَكِ فِيهِ فَرَجًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کو وہ ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا جو میں نے کھو دیا تھا، وہاں نماز کا وقت ہو گیا تو لوگوں نے بغیر وضو نماز پڑھ لی، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو تیمم کی آیت اتاری گئی۔ ابن نفیل نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے! آپ کو جب بھی کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اور آپ کے لیے اس میں ضرور کشادگی پیدا کر دی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/اللباس 58 (5882)، التفسیر 3 (4583)،(تحفة الأشراف: 1760،17205)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التیمم 2 (334)، صحیح مسلم/التیمم 28 (367)، سنن النسائی/الطھارة 194 (311)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 90 (658)، موطا امام مالک/الطھارة 23(89)، مسند احمد (6/57، 179)، سنن الدارمی/الطھارة 65 (773) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ sent Usayd ibn Hudayr and some people with him to search the necklace lost by Aishah. The time of prayer came and they prayed without ablution. When they returned to the Prophet ﷺ and related the fact to him, the verse concerning tayammum was revealed. Ibn Nufayl added: Usayd said to her: May Allah have mercy upon you! Never has there been an occasion when you were beset with an unpleasant matter but Allah made the Muslims and you come out of that.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 317


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (336) صحيح مسلم (367)
حدیث نمبر: 320
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن احمد بن ابي خلف، ومحمد بن يحيى النيسابوري، في آخرين، قالوا: حدثنا يعقوب، اخبرنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدثني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن عمار بن ياسر،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عرس باولات الجيش ومعه عائشة، فانقطع عقد لها من جزع ظفار، فحبس الناس ابتغاء عقدها ذلك حتى اضاء الفجر وليس مع الناس ماء، فتغيظ عليها ابو بكر، وقال: حبست الناس وليس معهم ماء، فانزل الله تعالى على رسوله صلى الله عليه وسلم رخصة التطهر بالصعيد الطيب، فقام المسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فضربوا بايديهم إلى الارض ثم رفعوا ايديهم ولم يقبضوا من التراب شيئا فمسحوا بها وجوههم وايديهم إلى المناكب، ومن بطون ايديهم إلى الآباط"، زاد ابن يحيى في حديثه: قال ابن شهاب في حديثه: ولا يعتبر بهذا الناس، قال ابو داود: وكذلك رواه ابن إسحاق، قال فيه: عن ابن عباس، وذكر ضربتين، كما ذكر يونس، ورواه معمر، عن الزهري، ضربتين، وقال مالك، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابيه، عن عمار، وكذلك قال ابو اويس عن الزهري، وشك فيه ابن عيينة، قال مرة: عن عبيد الله، عن ابيه، او عن عبيد الله، عن ابن عباس، ومرة قال: عن ابيه، ومرة قال: عن ابن عباس، اضطرب ابن عيينة فيه وفي سماعه من الزهري، ولم يذكر احد منهم في هذا الحديث الضربتين، إلا من سميت.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَّسَ بِأَوَّلَاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ، فَانْقَطَعَ عِقْدٌ لَهَا مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ، فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَاءَ عِقْدِهَا ذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَاءٌ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُخْصَةَ التَّطَهُّرِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ، فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمْ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا فَمَسَحُوا بِهَا وُجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ، وَمِنْ بِطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الْآبَاطِ"، زَادَ ابْنُ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فِي حَدِيثِهِ: وَلَا يَعْتَبِرُ بِهَذَا النَّاسُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ فِيهِ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَذَكَرَ ضَرْبَتَيْنِ، كَمَا ذَكَرَ يُونُسُ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، ضَرْبَتَيْنِ، وقَالَ مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَشَكَّ فِيهِ ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ مَرَّةً: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمَرَّةً قَالَ: عَنْ أَبِيهِ، وَمَرَّةً قَالَ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، اضْطَرَبَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِيهِ وَفِي سَمَاعِهِ مِنْ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الضَّرْبَتَيْنِ، إِلَّا مَنْ سَمَّيْتُ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولات الجیش ۱؎ میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، ان کا ہار جو ظفار کے مونگوں سے بنا تھا ٹوٹ کر گر گیا، چنانچہ ہار کی تلاش کے سبب لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ صبح روشن ہو گئی اور لوگوں کے پاس پانی موجود نہیں تھا، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہو گئے اور کہا: تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے، حالانکہ ان کے پاس پانی نہیں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پاک مٹی سے طہارت حاصل کرنے کی رخصت نازل فرمائی، مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، اپنے ہاتھ زمین پر مار کر اسے اس طرح اٹھا لیا کہ مٹی بالکل نہیں لگی، پھر اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مونڈھوں تک اور ہتھیلیوں سے بغلوں تک مسح کیا۔ ابن یحییٰ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں کہا: لوگوں کے نزدیک اس فعل کا اعتبار نہیں ہے ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز اسی طرح ابن اسحاق نے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے دو ضربہ ۳؎ کا ذکر کیا ہے جس طرح یونس نے ذکر کیا ہے، نیز معمر نے بھی زہری سے دو ضربہ کی روایت کی ہے۔ مالک نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، عبیداللہ نے اپنے والد عبداللہ سے، عبداللہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اور اسی طرح ابواویس نے زہری سے روایت کی ہے، اور ابن عیینہ نے اس میں شک کیا ہے: کبھی انہوں نے «عن عبيد الله عن أبيه» کہا، اور کبھی «عن عبيد الله عن ابن عباس» یعنی کبھی «عن أبيه» اور کبھی «عن ابن عباس» ذکر کیا۔ ابن عیینہ اس میں ۴؎ اور زہری سے اپنے سماع میں ۵؎ مضطرب ہیں نیز زہری کے رواۃ میں سے کسی نے دو ضربہ کا ذکر نہیں کیا ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا میں نے نام لیا ہے ۶؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الطہارة 197 (315)، (تحفة الأشراف: 10357)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/263) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، اسے ذات الجیش بھی کہا جاتا ہے۔ وضاحت: کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے پہلے اپنی رائے وقیاس سے انہوں نے ایساکیا تھا۔
۲؎: ابن حجر کے قول کے مطابق صفت تیمم کے سلسلہ میں ابوجہیم اور عمار رضی اللہ عنہما کی حدیث کو چھوڑ کر باقی ساری روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں «التيمم للوجه والكفين» کے ساتھ باب باندھا ہے (ملاحظہ ہو: فتح الباری)۔
۳؎ علامہ البانی دو ضربہ والی روایات کو واہی اور معلول کہتے ہیں، اس لئے دو ضربہ کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک ضربہ کافی ہے (ارواء الغلیل)۔
۴؎: یعنی کبھی تو انہوں نے «عن أبيه» کہا اور کبھی اسے ساقط کرکے اس کی جگہ «عن ابن عباس» کہا۔
۵؎: کبھی انہوں نے اسے زہری سے بلاواسطہ روایت کیا ہے اور کبھی اپنے اور زہری کے درمیان عمرو بن دینار کا واسطہ بڑھا دیا۔
۶؎: وہ نام یہ ہیں: یونس، ابن اسحاق اور معمر، زہری کے رواۃ میں صرف انہیں تینوں نے ضربتین کے لفظ کا ذکر کیا ہے، رہے زہری سے روایت کرنے والے باقی لوگ جیسے صالح بن کیسان، لیث بن سعد، عمرو بن دینار، مالک، ابن ابی ذئب وغیرہم تو ان میں سے کسی نے ضربتین کا ذکر نہیں کیا ہے۔

Narrated Ammar ibn Yasir: The Messenger of Allah ﷺ encamped at Ulat al-Jaysh and Aishah was in his company. Her necklace of onyx of Zifar was broken (and fell somewhere). The people were detained to make a search for that necklace until the dawn broke. There was no water with the people. Therefore Abu Bakr became angry with her and said: You detained the people and they have no water with them. Thereupon Allah, the Exalted, sent down revelation about it to His Messenger ﷺ granting concession to purify themselves with pure earth. Then the Muslims stood up with the Messenger of Allah ﷺ and struck the ground with their hands and then they raised their hands, and did not take any earth (in their hands). Then they wiped with them their faces and hands up to the shoulders, and from their palms up to the armpits. Ibn Yahya added in his version: Ibn Shihab said in his tradition: The people do not take this (tradition) into account. Abu Dawud said: Ibn Ishaq also reported it in a similar way. In this (version) he said on the authority of Ibn Abbas. He mentioned the words "two strikes" (i. e. striking the earth twice) as mentioned by Yunus. And Mamar also narrated on the authority of al-Zuhri "two strikes". And Malik said: From al-Zuhri from Ubaid Allah bin Abdullah from his father on the authority of Ammar. Abu Uwais also reported it in a similar way on the authority of al-Zuhri. But Ibn Uyainah doubted it, he sometimes said: from his father, and sometimes he said: from Ibn Abbas. Ibn Uyainah was confused in it and in his hearing from al-Zuhri. No one has mentioned "two strikes" in this tradition except those whose names I have mentioned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 320


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.