نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ۱؎(قطعی طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟“ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطلاق 2 (1177)، ق / الطلاق 19 (2051)، (تحفة الأشراف: 3613)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/ الطلاق 8 (2318) (ضعیف)» (اس کے راوی نافع مجہول ہیں، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے)
وضاحت: ۱؎: البتہ: «بتّ» کا اسم مرہ ہے، البتہ اور «بتات» کے معنی یقیناً اور قطعاً کے ہیں، طلاق بتہ یا البتہ ایسی طلاق جو یقینی اور قطعی طور پر پڑ چکی ہے، اورصحیح احادیث کی روشنی میں تین طلاق سنت کے مطابق تین طہر میں دی جائے، تو اس کے بعد یہ طلاق قطعی اور بتہ ہو گی، واضح رہے کہ یزید بن رکانہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔
Nafi bun Ujair bin Abd Yazid bin Ruknah reported Ruknah bin Abd Yazid divorced his wife Suhaimah absolutely. The Prophet ﷺ was informed about this matter. He said to him (the Prophet) I swear by Allaah that I meant it to be only a single utterance of divorce. The Messenger of Allah ﷺ said “I swear by Allaah that I meant it to be only a single divorce. The Messenger of Allah ﷺ restored her to him, Then he divorced her the second time in the time of Umar and the third time of Uthman. Abu Dawud said “This tradition contains the words of Ibrahim in its beginning and the words of Ibn Al Sarh in the end.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2200
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3283) ونقل الدارقطني (4/33 ح 3933) بسند صحيح عن أبي داود قال: ’’وھذا حديث صحيح‘‘ وأعل بما لا يقدح
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني بعض بني ابي رافع مولى النبي صلى الله عليه وسلم، عن عكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس، قال: طلق عبد يزيد ابو ركانة وإخوته ام ركانة ونكح امراة من مزينة، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما يغني عني إلا كما تغني هذه الشعرة لشعرة اخذتها من راسها ففرق بيني وبينه، فاخذت النبي صلى الله عليه وسلم حمية فدعا بركانة وإخوته، ثم قال لجلسائه:" اترون فلانا يشبه منه كذا وكذا من عبد يزيد، وفلانا يشبه منه كذا وكذا؟" قالوا: نعم، قال النبي صلى الله عليه وسلم لعبد يزيد:" طلقها"، ففعل، ثم قال:" راجع امراتك ام ركانة وإخوته"، فقال: إني طلقتها ثلاثا يا رسول الله، قال:" قد علمت، راجعها"، وتلا: يايها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن سورة الطلاق آية 1". قال ابو داود: وحديث نافع بن عجير و عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة، عن ابيه، عن جده، ان ركانة طلق امراته البتة، فردها إليه النبي صلى الله عليه وسلم اصح، لان ولد الرجل واهله اعلم به إن ركانة، إنما طلق امراته البتة، فجعلها النبي صلى الله عليه وسلم واحدة. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ أُمَّ رُكَانَةَ وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةٌ فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَجُلَسَائِهِ:" أَتَرَوْنَ فُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ، وَفُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ:" طَلِّقْهَا"، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ:" رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ"، فَقَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" قَدْ عَلِمْتُ، رَاجِعْهَا"، وَتَلَا: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ، لِأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ إِنَّ رُكَانَةَ، إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةً.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رکانہ اور اس کے بھائیوں کے والد عبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا، وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئیے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوا لیا، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ: ”کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی؟“، لوگوں نے کہا: ہاں (ملتی ہے)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد یزید سے فرمایا: ”اسے طلاق دے دو“، چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی، پھر فرمایا: ”اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کر لو“، عبد یزید نے کہا: اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کر لو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن»(سورۃ الطلاق: ۱)”اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت (حدیث نمبر: ۲۲۰۶) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رجوع کرا دیا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک ہی شمار کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 6281)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/265) (عندہ ’’داود بن حصین‘‘ مکان ’’بعض بنی أبی رافع‘‘ (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث حسن ہے، اور مؤلف نے جس حدیث (نمبر: ۲۲۰۶) کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ضعیف ہے، نیز اولاد رکانہ واقعہ کے بیان میں خود مضطرب ہیں، یاد رہے کہ عہد نبوی میں ”تین طلاق“ اور ”طلاقہ بتہ “ ہم معنی الفاظ تھے، عہد نبوی و عہد صحابہ کے بعد لوگوں نے ”طلاق بتہ“ کا یہ معنی بنا دیا کہ جس میں ایک دو، تین طلاق دہندہ کی نیت کے مطابق طے کیا جائیگا (تفصیل کے لے دیکھئے تنویر الآفاق)
Narrated Abdullah ibn Abbas: Abd Yazid, the father of Rukanah and his brothers, divorced Umm Rukanah and married a woman of the tribe of Muzaynah. She went to the Prophet ﷺ and said: He is of no use to me except that he is as useful to me as a hair; and she took a hair from her head. So separate me from him. The Prophet ﷺ became furious. He called on Rukanah and his brothers. He then said to those who were sitting beside him. Do you see so-and-so who resembles Abdu Yazid in respect of so-and-so; and so-and-so who resembles him in respect of so-and-so? They replied: Yes. The Prophet ﷺ said to Abdu Yazid: Divorce her. Then he did so. He said: Take your wife, the mother of Rukanah and his brothers, back in marriage. He said: I have divorced her by three pronouncements, Messenger of Allah. He said: I know: take her back. He then recited the verse: "O Prophet, when you divorce women, divorce them at their appointed periods. " Abu Dawud said: The tradition narrated by Nafi bin 'Ujair and Abdullah bin Yazid bin Rukanah from his father on the authority of his grandfather reads: Rukanah divorced his wife absolutely (i. e. irrevocable divorce). The Prophet ﷺ restored her to him. This version is sounder (than other versions), for they (i. e. these narrators) are the children of his man, and the members of the family are more aware of his case. Rukanah divorced his wife absolutely (i. e. three divorces in one pronouncement) and the Prophet ﷺ made it a single divorce.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2191
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بعض بني أبي رافع: مجهول وأشار ابن حجر في التقريب (ج 4 ص 391) كأنه الفضل بن عبيد اللّٰه بن أبي رافع والفضل ھذا: مقبول (تق: 5408) يعني مجهول الحال انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود العتكي، حدثنا جرير بن حازم، عن الزبير بن سعيد، عن عبد الله بن علي بن يزيد بن ركانة، عن ابيه، عن جده، انه طلق امراته البتة، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما اردت؟" قال: واحدة، قال:" آلله؟" قال: آلله؟ قال:" هو على ما اردت". قال ابو داود: وهذا اصح من حديث ابن جريج، ان ركانة طلق امراته ثلاثا، لانهم اهل بيته وهم اعلم به. وحديث ابن جريج رواه عن بعض بني ابي رافع، عن عكرمة، عن ابن عباس. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا أَرَدْتَ؟" قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ:" آللَّهِ؟" قَالَ: آللَّهِ؟ قَالَ:" هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ. وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا نیت کی تھی؟“ انہوں نے کہا: ایک کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع (جو ایک مجہول ہے) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، (دیکھئیے حدیث نمبر: ۲۰۹۶)
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم (2206)، (تحفة الأشراف: 3613) (اس کے تین رواة ضعیف ہیں، دیکھئے: إرواء الغلیل: 2063) (ضعیف)»
Ali bin Yazid bin Rukanah reported on the authority of his father from his grandfather that he (Rukanah) divorced his wife absolutely; so he came to the Messenger of Allah ﷺ. He asked (him): What did you intend? He said: A single utterance of divorce. He said: Do you swear by Allah? He replied: I swear by Allah. He said: It stands as you intended. Abu Dawud said: This tradition is sounder than that of Ibn Juraij that Rukanah divorced his wife by three pronouncements, for they are the members of his family and they are more aware for him. The tradition of Ibn Juraij has been narrated by some children of Abu Rafi from Ikrimah on the authority of Ibn Abbas.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2202
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1177) ابن ماجه (2051) الزبير بن سعيد: لين الحديث (تق: 1995) وفي التحرير: ”بل ضعيف متفق علي تضعيفه“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 83