عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے لوگوں میں سے کمزور جان کر مزدلفہ کی رات کو پہلے بھیج دیا تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ روانہ کر دینا جائز ہے، تا کہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں، لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن كثير، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، قال: قال عمر بن الخطاب: كان اهل الجاهلية لا يفيضون حتى يروا الشمس على ثبير، فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم فدفع قبل طلوع الشمس". (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ حَتَّى يَرَوْا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ۱؎ پر نہ دیکھ لیتے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: The Arabs in the pre-Islamic period did not return from al-Muzdalifah till they saw sunlight at the mountain Thabir. The Prophet ﷺ opposed them and returned before the sunrise.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1933
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، قال: حدثني سلمة بن كهيل، عن الحسن العرني، عن ابن عباس، قال:" قدمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة اغيلمة بني عبد المطلب على حمرات فجعل يلطخ افخاذنا، ويقول: ابيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس". قال ابو داود: اللطخ: الضرب اللين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" قَدَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى حُمُرَاتٍ فَجَعَلَ يَلْطَخُ أَفْخَاذَنَا، وَيَقُولُ: أُبَيْنِيَّ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: اللَّطْخُ: الضَّرْبُ اللَّيِّنُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے مزدلفہ کی رات پہلے ہی روانہ کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے: ”اے میرے چھوٹے بچو! جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب طلوع نہ ہو جائے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «لطح» کے معنی آہستہ مارنے کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 222 (3066)، سنن ابن ماجہ/ المناسک 62 (3025)، (تحفة الأشراف: 5396)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 58 (893)، مسند احمد (1/234، 311، 343) (صحیح)»
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ sent ahead some boys from Banu Abdul Muttalib on donkeys on the night of al-Muzdalifah. He began to pat our thighs (out of love) and said: O young! boys do not throw pebbles at the jamrah till the sun rises. Abu Dawud said: The Arabic word al-lath means to strike softly.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1935
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (3066) ابن ماجه (3025) الحسن العرني ثقة أرسل عن ابن عباس (تق: 1252) ولبعض الحديث شواھد بعضھا حسنة عند الطحاوي (مشكل الآثار 9/ 119ح 3494) وغيره والحديث الآتي (الأصل: 1941) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 75
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کمزور اور ضعیف لوگوں کو اندھیرے ہی میں منیٰ روانہ کر دیتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب نہ نکل آئے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ used to send ahead the weak members of his family in darkness (to Mina), and command them not to throw pebbles at jamrahs until the sun rose.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1936
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد حسن عند الطحاوي في مشكل الآثار (9/119 ح 3494 وسنده حسن) والبخاري (1678) وغيرھما