زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آ جائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللقطة 1(1722)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1373)، سنن النسائی/الکبری (5811)، سنن ابن ماجہ/ اللقطة 1 (507)، (تحفة الأشراف:3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)»
Narrated Zayd ibn Khalid al-Juhani: The Messenger of Allah ﷺ was asked about a find. He said: Make it known for a year. If its seeker comes, deliver it to him, otherwise note its container and its string. Then use it; if its seeker comes, deliver it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1702
قال الشيخ الألباني: صحيح م وفي إسناده زيادة عن أبي النضر عن بسر وهو الصواب
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، قال: غزوت مع زيد بن صوحان و سلمان بن ربيعة فوجدت سوطا، فقالا لي: اطرحه، فقلت: لا، ولكن إن وجدت صاحبه وإلا استمتعت به فحججت فمررت على المدينة، فسالت ابي بن كعب، فقال: وجدت صرة فيها مائة دينار، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقال:" عرفها حولا"، فعرفتها حولا ثم اتيته، فقلت: لم اجد من يعرفها، فقال:" احفظ عددها ووكاءها ووعاءها فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها"، وقال: ولا ادري اثلاثا قال عرفها او مرة واحدة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِيَ: اطْرَحْهُ، فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ إِنْ وَجَدْتُ صَاحِبَهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ فَحَجَجْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَسَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا"، فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا"، وَقَالَ: وَلَا أَدْرِي أَثَلَاثًا قَالَ عَرِّفْهَا أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا: اسے پھینک دو، میں نے کہا: نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (۱۰۰) دینار تھے، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اور پہچان کراؤ“، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال پھر پہچان کراؤ“، چنانچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آ جائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا“۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے «عرفها» تین بار کہا تھا یا ایک بار۔
Suwayd ibn Ghaflah said: I fought along with Zayd ibn Suhan and Sulayman ibn Rabiah. I found a whip. They said to me: Throw it away. I said: No; if I find its owner (I shall give it to him); if not, I shall use it. Then I performed hajj; and when I reached Madina, I asked Ubayy ibn Kab. He said: I found a purse which contained one hundred dinars; so I came to the Prophet ﷺ. He said to me: Make the matter known for a year. I made it known for a year and then came to him. He then said to me: Make the matter known for a year. So I made it known for a year. I then (again) came to him. He said to me: Make the matter known for a year. Then I came to him and said: I did not find anyone who realises it. He said: Remember, its number, its container and its tie. If its owner comes, (give it to him), otherwise use it yourself. He (the narrator Shubah) said: I do not know whether he said the word "make the matter known" three times or once.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1697
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2426) صحيح مسلم (1723)
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني، ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة، قال:" عرفها سنة، ثم اعرف وكاءها وعفاصها، ثم استنفق بها فإن جاء ربها فادها إليه"، فقال: يا رسول الله، فضالة الغنم، فقال:" خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب"، قال: يا رسول الله، فضالة الإبل، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه او احمر وجهه، وقال:" ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها حتى ياتيها ربها". (مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْغَنَمِ، فَقَالَ:" خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا رَبُّهَا".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھر اسے خرچ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو“، اس نے کہا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کو ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لو، اس لیے کہ وہ یا تو تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے“، اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کو ہم کیا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہو گئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ”تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اس کا جوتا ۱؎ اور اس کا مشکیزہ اس کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آ جائے“۔
وضاحت: ۱؎: جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے، اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور بار بار پانی پینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا بھی خوف نہیں کہ وہ خود اپنا دفاع کر لیتا ہے، اس لئے اسے پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
Zaid bin Khalid al-Juhani said: A man asked the Messenger of Allah ﷺ about a find. He said: Make the matter known for a year, then note its string and its container and then use it for your purpose. Then if its owner comes, give it to him. He asked: Messenger of Allah, what about a stray sheep? He replied: Take it; that is for you, or for your brother, or for the wolf. He again asked: Messenger of Allah, What about stray camels? The Messenger of Allah ﷺ became angry so much so that his cheeks became red or ( the narrator is doubtful) his face became red. He replied: What have you to do with them? They have with them their feet and their stomachs (for drink) till their master comes to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1700
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2436) صحيح مسلم (1722)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حفص، حدثني ابي، حدثني إبراهيم بن طهمان، عن عباد بن إسحاق، عن عبد الله بن يزيد، عن ابيه يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني، انه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر نحو حديث ربيعة، قال: وسئل عن اللقطة، فقال:"تعرفها حولا فإن جاء صاحبها دفعتها إليه وإلا عرفت وكاءها وعفاصها ثم افضها في مالك فإن جاء صاحبها فادفعها إليه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ رَبِيعَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:"تُعَرِّفُهَا حَوْلًا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا دَفَعْتَهَا إِلَيْهِ وَإِلَّا عَرَفْتَ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ أَفِضْهَا فِي مَالِكَ فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (لقطے کے متعلق) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا: لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آ جائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو، اور اگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو، پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کو دے دو“۔
The aforesaid tradition has also been transmitted by Zaid bin Khalid al-Juhani through a different chain of narrators. This version has: The Messenger of Allah ﷺ was asked about a find. He replied: Make the matter known for a year; if its owner comes, give it to him, otherwise note its string and its container and have it along with your property. If its owner comes, deliver it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1703
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1704) ورواه إبراهيم بن طھمان في المشيخة (4 وسنده حسن/ معاذ)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، عن حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد، وربيعة، بإسناد قتيبة ومعناه، وزاد فيه:" فإن جاء باغيها فعرف عفاصها وعددها فادفعها إليه"،وقال حماد ايضا: عن عبيد الله بن عمر، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله. قال ابو داود: وهذه الزيادة التي زاد حماد بن سلمة في حديث سلمة بن كهيل و يحيى بن سعيد و عبيد الله بن عمر و ربيعة:" إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووكاءها فادفعها إليه" ليست بمحفوظة، فعرف عفاصها ووكاءها، وحديث عقبة بن سويد، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ايضا، قال:" عرفها سنة"، وحديث عمر بن الخطاب ايضا، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" عرفها سنة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَرَبِيعَةَ، بِإِسْنَادِ قُتَيْبَةَ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِيهِ:" فَإِنْ جَاءَ بَاغِيهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"،وقَالَ حَمَّادٌ أَيْضًا: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ الَّتِي زَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِي حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ وَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ وَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَ رَبِيعَةَ:" إِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ" لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْضًا، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً"، وَحَدِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً".
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: ”اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کو دے دو“۔ اور حماد نے بھی عبیداللہ بن عمر سے، عبیداللہ نے عمرو بن شعیب نے «عن ابیہ عن جدہ» عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ زیادتی جو حماد بن سلمہ نے سلمہ بن کہیل، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ اور ربیعہ کی حدیث (یعنی حدیث نمبر: ۱۷۰۲ -۱۷۰۳) میں کی ہے: «إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووكاءها فادفعها إليه» یعنی: ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے تو اس کو دے دو“، اس میں: «فعرف عفاصها ووكاءها»”تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتا دے“ کا جملہ محفوظ نہیں ہے۔ اور عقبہ بن سوید کی حدیث میں بھی جسے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے یعنی «عرفها سنة»(ایک سال تک اس کی تشہیر کرو) موجود ہے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: «عرفها سنة» تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کسی روایت میں تین سال پہچان (شناخت) کراتے رہنے کا تذکرہ ہے، اور کسی میں ایک سال، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب و ورع، ان دونوں روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ قرار دیا جائے اور دوسرے کو منسوخ (ملاحظہ ہو: فتح الباری)۔
The above mentioned tradition has also been transmitted by Yahya bin Saeed and Rabiah through the chain of narrators mentioned by Qutaibah to the same effect. This version adds; if its seeker comes, and recognizes its container and its number, then give it to him. Hammad also narrated it from `Ubaid Allah bin Umar from Amr bin Shuaib, from his father, from his grandfather, from the Prophet ﷺ something similar. Abu Dawud said: This addition made by Hammad bin Salamah bin Kuhail, Yahya bin Saeed, `Ubaid Allah bin Umar and Rabiah; “if its owner comes and recognizes its container, and its string, ” is not guarded. The version narrated by Uqbah bin Suwaid on the authority of his father from the Prophet ﷺ has also the words: “make it known for a year”. The version of Umar bin al-Khattab has also been transmitted from the Prophet ﷺ. This version has: “Make it known for a year”.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1704
قال الشيخ الألباني: صحيح والزيادة عند خ أبي
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1722) انظر الحديث السابق (1704)
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ۱؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/ الکبری (5808، 5809)، سنن ابن ماجہ/اللقطة 2 (2505)، (تحفة الأشراف:11013)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں آگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہو جائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مر جائے اوراس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں۔
Narrated Iyad ibn Himar: The Prophet ﷺ said: He who finds something should call one or two trusty persons as witnesses and not conceal it or cover it up; then if he finds its owner he should return it to him, otherwise it is Allah's property which He gives to whom He will.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1705
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (3039) أخرجه ابن ماجه (2505 وسنده صحيح)