سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی۔ راوی نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی تو اندر چلے گئے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت چاہی تو انہیں بھی اجازت مل گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور کوئی ایسی بات کہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں۔ پس انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کاش آپ دیکھتے کہ خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچ مانگا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کا گلا گھونٹنے لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور فرمایا کہ یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں (اپنی اپنی بیٹیوں سے) کہتے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے؟ اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن جدا رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری کہ ”اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے کہہ دو .... سے .... اجر عظیم ہے“ تک (احزاب: 28,29)۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تم پر ایک چیز پیش کر رہا ہوں ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا بات ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرتی ہوں۔ اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو میرے اس جواب کی خبر نہ دیں جو میں نے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے فوراً خبر کر دوں گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تنگی اور سختی کرنے والا نہیں بلکہ آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔