سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو زمین پر سب سے بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے۔ } اس لئے کہ تین مہینے مسلسل ماہ حرام آتے ہیں جو ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں، تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ مار نہ کر سکتے کیونکہ مشرکین مکہ بھی حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے تھے۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ حرمت والے مہینے کون کون سے ہیں، ان کا احترام تو دور کی بات ہے) اس لئے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ مار کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے { کہتے تھے کہ جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں، (یعنی جو حج کے سفر کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئی ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ کرنے والے کو عمرہ جائز ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چوتھی ذی الحجہ کو احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں (جیسے ابن قیم وغیرہ کا مذہب ہے) پس لوگوں کو یہ بڑی انوکھی بات لگی اور انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کیسے حلال ہوں؟ (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پورے حلال ہو (یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں)۔