سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حج کے ساتھ عمرہ ملا کر حج تمتع کیا اور قربانی کی اور قربانی کے جانور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کی لبیک پکاری پھر حج کی لبیک پکاری، اور اسی طرح لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھایا اور لوگوں میں سے کسی کے پاس قربانی تھی کہ وہ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، اور کسی کے پاس قربانی نہیں تھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: جو قربانی لایا ہو وہ جن چیزوں سے احرام کی وجہ سے دور ہے، حج سے فارغ ہونے تک کسی چیز سے بھی حلال نہ ہو۔ اور جو قربانی نہ لایا ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی کر کے اپنے بال کتر ڈالے اور احرام کھول ڈالے۔ پھر (آٹھ ذوالحجہ کو) حج کی لبیک پکارے اور چاہئے کہ (حج کے بعد) قربانی کرے اور جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب اپنے گھر پہنچے تب رکھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں آئے تو پہلے پہل حجراسود کو بوسہ دیا پھر سات میں سے تین چکر دوڑ کر لگائے اور (جسے رمل کہتے ہیں) اور چار بار چل کر طواف کیا (جیسے عادت کے موافق چلتے ہیں) پھر جب طواف سے فارغ ہو چکے تو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر سلام پھیرا اور صفا پر تشریف فرما ہوئے اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سات بار سعی کی اور پھر کسی چیز کو اپنے اوپر حلال نہیں کیا ان چیزوں میں سے جن کو بہ سبب احرام کے اپنے اوپر حرام کیا تھا یہاں تک کہ حج سے بالکل فارغ ہو گئے اور اپنی قربانی یوم النحر یعنی ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ذبح کی اور مکہ آ کر بیت اللہ کا طواف افاضہ کیا، پھر ہر چیز کو اپنے اوپر حلال کر لیا جن کو احرام میں حرام کیا تھا۔ اور جو لوگ قربانی اپنے ساتھ لائے تھے، انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔