سیدنا ابوالاسود نے کہا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو وہ سب تین سو قاری ان کے پاس آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم بصرہ کے سب لوگوں سے بہتر ہو اور وہاں کے قاری ہو، پس قرآن پڑھتے رہو اور بہت مدت گزر جانے سے سست نہ ہو جاؤ کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں جیسے تم سے پہلوں کے دل سخت ہو گئے اور ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول میں اور سخت وعیدوں میں ”برات“ کے برابر تھی۔ پھر میں اسے بھلا دیا گیا مگر اتنی بات یاد رہی کہ اگر آدمی کے لئے مال کے دو میدان ہوتے ہیں تب بھی تیسرا ڈھونڈتا رہتا ہے اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے۔ اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے اور اس کو مسبحات میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے میں وہ بھی بھول گیا مگر اس میں سے یہ آیت یاد ہے کہ ”اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں“(جو ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے تو) وہ تمہاری گردنوں میں لکھ دی جاتی ہے گواہی کے طور پر کہ اس کا تم سے قیامت کے دن سوال ہو گا۔