سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دن کے شروع حصہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ کچھ لوگ آئے جو ننگے پیر، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی چادریں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئیں، اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آ گئے پھر باہر آئے۔ (یعنی پریشان ہو گئے، سبحان اللہ کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو پھر تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے بنایا (اس لئے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) ........ آخر آیت تک۔ پھر سورۃ الحشر کی یہ آیت پڑھی کہ ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لئے آگے کیا بھیج رکھا ہے جو کل (قیامت کے دن تمہارے) کام آئے۔ (پھر صدقات کا بازار گرم ہو گیا) کسی نے اشرفی دی، کسی نے درہم کسی نے ایک صاع گیہوں اور کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو (تو وہ بھی بطور صدقہ کے لاؤ)۔ پھر انصار میں سے ایک شخص تھیلی لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر تو لوگوں نے تار باندھ لیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا ہو جیسے کندن۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کی نیک کام کی ابتداء کرے (یعنی کتاب و سنت کی بات) اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے۔ اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) تو اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ بار گھٹے۔