سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا (اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز دیکھیں) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی قضاء حاجت کو گئے، پھر اپنا ہاتھ منہ دھویا اور پھر سو رہے پھر اٹھے اور مشک کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا پھر دو وضوؤں کے بیچ کا وضو کیا (یعنی نہ بہت مبالغہ کا نہ بہت ہلکا) اور زیادہ پانی نہیں گرایا اور پورا وضو کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنی شروع کی۔ اور میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حال دیکھنے کے لئے ہوشیار تھا (اس سے یہ معلوم ہوا کہ صحابہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ نہ تھا جیسے اب جاہلوں کو انبیاء اور اولیاء کے ساتھ ہے) اور میں نے وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ ایک مقتدی ہو تو امام کی داہنی طرف کھڑا ہو) غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رات کو تیرہ رکعت پوری ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب سو جاتے تھے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز کے لئے آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز (سنت فجر) ادا کی اور وضو نہیں کیا اور ان الفاظ سے دعا مانگی ”اے اللہ میرے دل میں نور پیدا کر دے اور آنکھ میں نور اور کان میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور پیچھے نور اور بڑھا دے میرے لئے نور“ کریب (راوی حدیث) نے کہا کہ سات لفظ اور فرمائے تھے کہ وہ میرے دل میں ہیں (یعنی منہ پر نہیں آتے اس لئے کہ میں بھول گیا) پھر میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بعض اولاد سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ الفاظ یہ ہیں ”میرا پٹھا اور میرا گوشت اور میرا لہو اور میرے بال اور میری کھال اور دو چیزیں اور ذکر کیں (یعنی ان سب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نور مانگا)۔