سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر کی قرآت سے فارغ ہو جاتے تو (دوسری رکعت میں) سرمبارک رکوع سے اٹھاتے اور فرماتے کہ ”سمع اللہ لمن حمدہ، اے ہمارے رب! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے“ پھر کھڑے ہی کھڑے کہتے کہ ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو (یہ سب مسلمان کفار کے ہاتھوں میں تھے) اور مومنوں میں سے ضعیف لوگوں (یعنی جو مکہ والوں کے ہاتھ میں دبے پڑے تھے) کو نجات دے۔ یا اللہ (قبیلہ) مضر پر اپنی پکڑ سخت کر۔ اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح کا قحط ڈال دے (جیسے مصر میں سات برس واقع ہوا تھا) یا اللہ لعنت کر لحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر (جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی)۔ پھر ہمیں خبر پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بددعا چھوڑ دی۔ جب یہ آیت اتری کہ ”اے نبی! تم کو اس کام میں کچھ اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو انہیں عذاب کرے، کیونکہ وہ ظالم ہیں“۔