مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
نماز کے مسائل
35. جو آدمی سو جائے یا نماز بھول جائے، تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے۔
حدیث نمبر: 229
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: تم آج زوال کے بعد اور اپنی ساری رات چلو اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے۔ پس لوگ اس طرح چلے کہ کوئی کسی کی طرف متوجہ نہ ہوتا تھا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جاتے تھے، یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو کی طرف تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونگھنے لگے اور اپنی سواری پر سے جھکے (یعنی نیند کے غلبہ سے) اور میں نے آ کر آپ کو ٹیکہ دیا (تاکہ گر نہ پڑیں) بغیر اس کے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ جب بہت رات گزر گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھکے اور میں نے پھر ٹیکہ دیا بغیر اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگاؤں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر چلے یہاں تک کہ آخر سحر کا وقت ہو گیا، پھر ایک بار بہت جھکے کہ اگلے دو بار سے بھی زیادہ، قریب تھا کہ گر پڑیں۔ پھر میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ابوقتادہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات سے آپ کے ساتھ اسی طرح چل رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جیسے تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم ہمیں دیکھتے ہو کہ ہم لوگوں کی نظروں میں پوشیدہ ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی کو دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ یہ ایک سوار ہے، پھر میں نے کہا کہ یہ ایک اور سوار ہے، یہاں تک کہ ہم سات سوار جمع ہو گئے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راہ سے ایک طرف الگ ہوئے اور اپنا سرزمین پر رکھا (یعنی سونے کو) اور فرمایا کہ تم لوگ ہماری نماز کا خیال رکھنا (یعنی نماز کے وقت جگا دینا)۔ پھر پہلے جو جاگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور دھوپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر آ گئی تھی پھر ہم لوگ گھبرا کر اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوار ہو جاؤ تو ہم سوار ہوئے پھر چلے یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اپنا وضو کا لوٹا منگوایا جو میرے پاس تھا اور اس میں تھوڑا سا پانی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا (جو عام وضو سے کم تھا یعنی بہت قلیل پانی سے بہت جلد) اور اس میں تھوڑا سا پانی باقی رہ گیا۔ پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ہمارے لوٹے کو رکھ چھوڑو کہ اس کی ایک عجیب کیفیت ہو گی۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کیلئے اذان کہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر صبح کی فرض نماز ادا کی اور ویسے ہی ادا کی جیسے ہر روز ادا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوئے، پھر ہم میں سے بعض دوسرے سے چپکے چپکے کہتا تھا کہ آج ہمارے اس قصور کا کیا کفارہ ہو گا جو ہم نے نماز میں قصور کیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کے لئے اسوہ نہیں ہوں؟ پھر فرمایا کہ سونے میں کیا قصور ہے؟ قصور تو یہ ہے کہ ایک آدمی نماز نہ پڑھے، یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے (یعنی جاگنے میں قضاء کرے) پھر جو ایسا کرے (یعنی اس کی قضاء ہو جائے تو) لازم ہے کہ جب ہوشیار ہو، ادا کرے۔ اور جب دوسرا دن آئے تو اپنی نماز اوقات متعینہ پر ادا کرے (یعنی یہ نہیں کہ ایک بار قضاء ہو جانے سے نماز کا وقت ہی بدل جائے)۔ پھر فرمایا کہ تم کیا خیال کرتے ہو کہ لوگوں نے کیا کیا ہو گا؟ پھر فرمایا کہ لوگوں نے جب صبح کی تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ تب ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کہ تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے آگے ہیں۔ پھر وہ لوگ اگر ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کی بات مانتے تو سیدھی راہ پاتے (یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزہ کے طور پر دی)۔ راوی نے کہا کہ پھر ہم لوگوں تک پہنچے، یہاں تک کہ دن کافی چڑھ آیا تھا اور ہر چیز گرم ہو گئی تھی اور لوگ کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو مر گئے اور پیاسے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم نہیں مرے۔ پھر فرمایا کہ ہمارا چھوٹا پیالہ لاؤ اور وہ لوٹا منگوایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالنے لگے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو پانی پلانے لگے۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ پانی ایک لوٹا بھر ہی ہے تو لوگ اس پر گرنے لگے (یعنی ہر شخص ڈرنے لگا کہ پانی تھوڑا ہے کہیں محروم نہ رہ جاؤں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی طرح آہستگی سے لیتے رہو، تم سب سیراب ہو جاؤ گے۔ غرض کہ پھر لوگ اطمینان سے لینے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالتے تھے اور میں پلاتا تھا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی باقی نہ رہا (راوی نے) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ پیو! میں نے عرض کیا کہ میں نہ پیوں گا جب تک اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پئیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قوم کا پلانے والا سب کے آخر میں پیتا ہے۔ پھر میں نے پیا (راوی نے) کہا کہ پھر لوگ پانی پر خوش خوش اور آسودہ پہنچے (راوی نے) کہا کہ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ میں جامع مسجد میں لوگوں سے یہی حدیث بیان کرتا تھا کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے جوان غور کرو کہ تم کیا کہتے ہو، اس لئے کہ میں اس رات کا ایک سوار تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا پھر تو آپ اس حدیث سے خوب واقف ہوں گے انہوں نے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ میں نے کہا میں انصار میں سے ہوں۔ انہوں نے کہا بیان کرو کہ تم تو اپنی حدیثوں کو خوب جانتے ہو۔ پھر میں نے لوگوں سے پوری روایت بیان کی۔ تب سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اس رات حاضر تھا مگر میں نہیں جانتا کہ جیسا تم نے یاد رکھا ایسا اور کسی نے یاد رکھا ہو۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.