سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن نہیں سنایا اور ان کو دیکھا بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ اس زمانہ میں عکاظ کے بازار گئے جب کہ شیطانوں پر آسمانی دروازے بند ہو گئے تھے اور ان پر آگ کے شعلے برسائے جا رہے تھے۔ چنانچہ شیطانوں کے ایک گروہ نے اپنے لوگوں میں جا کر کہا کہ ہمارا آسمان پر جانا بند ہو گیا اور ہم پر آگ کے شعلے برسنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب ضرور کوئی نیا امر ہے، تو مشرق و مغرب کی طرف پھر کر خبر لو اور دیکھو کہ کیا وجہ ہے جو آسمان کی خبریں آنا بند ہو گئیں۔ وہ زمین میں مشرق و مغرب کی طرف پھرنے لگے۔ ان میں سے کچھ لوگ تہامہ (ملک حجاز) کی طرف عکاظ کے بازار کو جانے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (مقام) نخل میں اپنے اصحاب کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیئے اور کہنے لگے کہ آسمان کی خبریں موقوف ہونے کا یہی سبب ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے اور کہنے لگے کہ اے ہماری قوم کے لوگو! ”ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو سچی راہ کی طرف لے جاتا ہے، پس ہم اس پر ایمان لائے اور ہم کبھی اللہ کے ساتھ شریک نہ کریں گے“ تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری کہ ”اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا“۔