سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملا ہوں۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔