مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
4. جو شخص اللہ تعالیٰ کو ایمان کے ساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حدیث نمبر: 12
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ابوہریرہ ہے؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے) دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کیلئے جنت ہے۔ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابوہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دے کر بھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو عمل کرنے دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.