سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں کوشش کرتا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا۔ کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوہ احزاب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔ یہ سن کر ہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے؟ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا۔ کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔ اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔ (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے، تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتا تو بیشک ابوسفیان کو مار لیتا۔ آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا، اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے!