مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
34. مال ”فے“ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔
حدیث نمبر: 1147
Save to word مکررات اعراب
سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور وہ اپنے گھر میں (بغیر بستر کے) ننگی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا آئے ہیں کیا ان کو آنے دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آ گئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہا آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دیدے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! میرا اور اس جھوٹے، گنہگار، دغاباز اور چور کا فیصلہ کر دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیرالمؤمنین! ان کا فیصلہ کر دیجئیے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجئیے۔ مالک بن اوس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا کو (اس لئے) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ سب نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ ان دونوں نے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دئیے۔ اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال کو) تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی، جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں، تو تم دونوں آئے۔ عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس کے بھائی کے بیٹے تھے) اور علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، تو تم ان کو جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا، تو تم نے مجھے بھی جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکوکار اور حق پر ہوں، حق کا تابع ہوں۔ میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو تو میں نے کہا کہ اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں، البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا، تو پھر مجھے لوٹا دو۔

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.