علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ ان کے والد رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک شخص دوسرے کو تسمہ سے کھینچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کو قتل کیا ہے؟ وہ (پہلا شخص) بولا اگر یہ اقرار نہیں کرے گا تو میں اس پر گواہ لاؤں گا۔ تب وہ شخص بولا کہ بیشک میں نے اس کو قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے کیسے قتل کیا ہے؟ وہ بولا کہ میں اور وہ دونوں درخت کے پتے جھاڑ رہے تھے کہ اتنے میں اس نے مجھے گالی دی اور مجھے غصہ دلایا تو میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری اور وہ مر گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے پاس کچھ مال ہے جو اپنی جان کے بدلے میں دے؟ وہ بولا میرے پاس کچھ نہیں سوائے اس چادر اور کلہاڑی کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری قوم کے لوگ تجھے چھڑائیں گے؟ اس نے کہا کہ ان کے پاس میری اتنی قدر نہیں ہے۔ تب آپ نے وہ تسمہ مقتول کے وارث کی طرف پھینک دیا اور فرمایا اسے لے جاؤ۔ وہ لے کر چل دیا۔ جب پیٹھ موڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو قتل کرے گا تو اس کے برابر ہی رہے گا (یعنی نہ اس کو کوئی درجہ ملے گا نہ اس کو کوئی مرتبہ حاصل ہو گا کیونکہ اس نے اپنا حق دنیا ہی میں وصول کر لیا)۔ یہ سن کر وہ لوٹا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ اگر میں اس کو قتل کروں گا تو اس کے برابر رہوں گا اور میں نے تو اس کو آپ کے حکم سے پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو یہ نہیں چاہتا کہ وہ تیرا اور تیرے بھائی کا گناہ سمیٹ لے؟ وہ بولا ”جی ہاں کیوں نہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اسی طرح ہو گا۔ پھر اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اس کو چھوڑ دیا۔