سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ملک الموت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا تو جب وہ آیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کے ایک ایسا طمانچہ مارا کہ اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی اور وہ اپنے پروردگار کے پاس واپس گیا اور عرض کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ دوبارہ اسے عنایت فرمائی اور حکم دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پھر جا اور ان سے کہہ کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، پس جس قدر بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے، اتنے ہی سال کی زندگی انہیں اور دی جائے گی۔“(چنانچہ فرشتہ آیا اور موسیٰ علیہ السلام کو پیغام باری سنایا) تو انہوں نے کہا: ”اے پروردگار! (جب وہ سب برس گزر جائیں) گے تو پھر کیا ہو گا؟“ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پھر موت آئے گی۔“ انہوں نے کہا: ”ابھی سہی۔“ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی: ”انہیں ارض مقدس سے بقدر ایک پتھر پھینکنے کے قریب کر دے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرما کر مزید کہا: ”اگر میں اس مقام پر ہوتا تو تمہیں موسیٰ علیہ السلام کی قبر، راستہ کے ایک طرف سرخ ٹیلے کے پاس دکھا دیتا۔“