سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) اس حالت میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے (کچھ) بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب (قائم) ہو گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات) بیان کرتے رہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کہنا سن (تو) لیا مگر (چونکہ) اس کی بات آپ کو بری محسوس ہوئی اس لیے آپ نے جواب نہیں دیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ (یہ بات نہیں ہے) بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات ختم کر چکے تو فرمایا: ”کہاں ہے۔“ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ لفظ تھے۔ ”قیامت کا پوچھنے والا؟“ تو سائل نے کہا یا رسول اللہ! میں (یہاں) ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا (سمجھو قیامت آیا ہی چاہتی ہے)۔ اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہو گا؟ فرمایا: جب کام (معاملہ) ناقابل (نااہل) کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔