سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے امیرالمؤمنین عمر فاروق سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو امیرالمؤمنین نے سعد رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا حاکم بنایا، ان لوگوں نے (سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بہت سی) شکایتیں کیں یہاں تک کہ انھوں نے بیان کیا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے تو امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے ابواسحاق! (سعد رضی اللہ عنہ کی یہ کنیت ہے) یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو انھوں نے کہا کہ سنو! میں اللہ کی قسم ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مثل نماز پڑھاتا تھا۔ پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا تھا اور اخیر کی دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! تمہاری نسبت ایسا ہی خیال تھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص یا ایک وفد کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کوفہ بھیجا تاکہ وہ کوفہ والوں سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھیں (چنانچہ وہ گئے) اور انھوں نے کوئی مسجد نہیں چھوڑی کہ جس میں سعد رضی اللہ عنہ کی کیفیت نہ پوچھی ہو اور سب لوگ ان کی عمدہ تعریف کرتے رہے، یہاں تک کہ بنی عبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا، اس کو اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور اس کی کنیت ابوسعدہ تھی، اس نے کہا جب تم نے ہمیں قسم دلائی تو (مجبور ہو کر میں کہتا ہوں) کہ سعد (رضی اللہ عنہ) لشکر کے ہمراہ (جہاد کو خود) نہ جاتے تھے اور (غنیمت کی) تقسیم برابر نہ کرتے تھے اور فیصلے میں انصاف (بھی) نہیں کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) کہنے لگے کہ دیکھ میں تین بددعائیں تجھ کو دیتا ہوں اے اللہ! اگر یہ بندہ جھوٹا ہو اور نمود و نمائش کے لیے (اس وقت) کھڑا ہوا ہو تو اس کی عمر بڑھا دے اور اس کی فقیری بڑھا دے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کر دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اور اس کے بعد جب اس سے (اس کا حال) پوچھا جاتا تھا تو کہتا کہ ایک بڑی عمر والا بوڑھا ہوں، فتنوں میں مبتلا، مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اب اس حال میں دیکھا ہے اس کی دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر بڑھاپے کے سبب سے جھکی پڑی ہیں، وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیڑتا ہے اور ان پر دست درازی کرتا ہے۔