ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کی ایک حبشی لونڈی تھی انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا، مگر وہ ان کے ساتھ رہا کرتی تھی، وہ بیان کرتی ہے کہ (ایک مرتبہ) اسی قبیلے کے لوگوں کی لڑکی باہر نکلی اور اس (کے جسم) پر سرخ چمڑے کی ایک حمائل پڑی ہوئی تھی، کہتی ہے کہ اس نے اس کو خود اتارا یا وہ اس سے گر پڑی، پھر ایک چیل اس طرف سے گزری اور وہ حمائل (نیچے) پڑی ہوئی تھی، چیل نے اسے گوشت سمجھا اور جھپٹ لے گئی، وہ کہتی ہے کہ ان لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر اسے نہ پایا تو اس کا الزام مجھ پر لگا دیا۔ کہتی ہے کہ وہ لوگ میری تلاشی لینے لگے یہاں تک کہ اس کی شرمگاہ کو بھی دیکھا۔ وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم میں ان کے پاس کھڑی تھی کہ اچانک وہ چیل گزری اور اس نے اس (حمائل) کو پھینک دیا۔ وہ کہتی ہے کہ حمائل ان کے درمیان آ کر گری۔ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ یہی ہے وہ جس کا الزام تم نے مجھ پر لگایا تھا، تم نے بدگمانی کی حالانکہ میں اس سے بری تھی اور وہ یہ ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اسلام قبول کر لیا تو مسجد میں اس کا ایک خیمہ تھا یا (یہ کہا کہ) ایک چھوٹا سا حجرہ۔ اور وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ اور میرے پاس وہ جب بھی آتی تو یہ ضرور کہتی کہ حمائل والا دن ہمارے پروردگار کی عجیب۔۔۔ قدرتوں میں سے ہے۔۔۔ آگاہ رہو اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات دی۔۔۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے اس سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب کبھی تم میرے پاس آتی ہو تو یہ ضرور کہتی ہو تو اس پر اس نے مجھ سے یہ قصہ بیان کیا۔