سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور ہم رات کو چلے، یہاں تک کہ جب اخیر رات (ہوئی تو اس وقت) میں ہم مقیم ہوئے اور سب سو گئے اور مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ پھر ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کیا، پس سب سے پہلے جو جاگا فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چوتھے جاگنے والے ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو ان کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا یہاں تک کہ آپ خود بیدار ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کے لیے آپ کے خواب میں کیا ہو رہا ہے مگر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور انھوں نے وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج کے آدمی تھے تو انھوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے کہ تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آواز کے سبب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ پس جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر پڑی تھی اس کی شکایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ تو آپ نے فرمایا: ”کچھ نقصان نہیں“ یا (یہ فرمایا کہ)”کچھ نقصان نہ کرے گا، چلو (اس لیے کہ یہ عمداً نہیں تھا)۔“ پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے اور وضو کا پانی منگوایا، پھر وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو یکایک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہ پڑھی تھی، تو آپ نے فرمایا: ”اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟“ تو اس نے کہا کہ جنابت ہو گئی تھی اور پانی نہ تھا آپ نے فرمایا: ”تو لازم پکڑ مٹی کو (تیمم کر) وہ تجھے کافی ہے۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اتر پڑے اور ایک شخص کو بلایا اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔ پس دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کی دو مشکوں کے درمیان اپنے اونٹ پر بیٹھی جا رہی تھی۔ تو ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا میں کل اسی وقت پانی پر تھی اور ہمارے مرد پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے کہا خیر اب تو چل۔ وہ بولی کہاں؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ اس نے کہا وہی شخص جسے بےدین کہا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں! وہیں جن کو (تم یہ خیال کرتی ہو)، تو چل تو سہی۔ پس وہ دونوں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری کیفیت بیان کی۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اسے اس کے اونٹ سے اتارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ظرف (یعنی برتن) منگوایا اور دونوں مشکوں کے منہ کھول کر اس میں سے کچھ پانی اس برتن میں نکالا۔ (اس کے بعد) ان کے اوپر والے منہ کو بند کر دیا اور نچلے منہ کو کھول دیا اور لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ پانی پیو اور (اپنے جانوروں کو بھی) پلا لو۔ جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا اور اخیر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو جنابت ہو گئی تھی اس کو ایک برتن پانی کا دیا اور آپ نے فرمایا: ”جا اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے۔“ اور وہ عورت کھڑی ہوئی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور اللہ کی قسم (جب پانی لینا) اس کے مشکوں سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ اس کے لیے جمع کر دو۔“ تو لوگوں نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ جمع کر دیے جہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا اس کے لیے جمع کر دیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر دیا اور کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ کم نہیں کیا، لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا۔“ پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی چونکہ وہ راہ میں روک لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ تجھے کس نے روک لیا تھا؟ تو اس نے کہا (کہ عجیب بات ہوئی) مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جسے بےدین کہا جاتا ہے اور اس نے ایسا ایسا کام کیا۔ پس قسم اللہ کی! یقیناً وہ شخص اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا مراد اس کی آسمان و زمین تھی یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے۔ پس مسلمان اس کے بعد، اس کے آس پاس کے مشرکوں سے لڑتے رہے اور جس آبادی (بستی) میں وہ عورت رہتی تھی۔ تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بیشک یہ لوگ عمداً تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، پس کیا تمہیں اسلام میں کچھ (رغبت) ہے؟ تو انھوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔