سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ میرے سامنے گزشتہ امتیں پیش کی گئیں اور انبیاء گزرنے لگے کسی کے ساتھ ایک آدمی، کسی کے ساتھ دو آدمی، کسی کے ساتھ ان کی امت کے کچھ لوگ تھے اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی (امتی) نہ تھا یہاں تک کہ ایک بہت بڑی جماعت میرے سامنے کی گئی، میں نے پوچھا: ”یہ کس کی امت ہے؟ کیا یہ میری امت ہے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے (پھر) کہا گیا کہ تم آسمان کو دیکھو (تو کیا دیکھتا ہوں! کہ ایک بڑی جماعت نے آسمان کے کنارے کو گھیر رکھا ہے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر ادھر آسمان کے دوسرے کنارے بھی دیکھو۔ میں نے دیکھا کہ واقعی بہت بڑی جماعت افق کو گھیرے ہوئے تھی۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان میں سے ستر ہزار بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔“ اس قدر فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرہ میں) تشریف لے گئے اور ہم لوگوں سے یہ ظاہر نہ فرمایا: ”وہ کون لوگ ہوں گے۔ (اس پر) لوگوں نے جھگڑنا شروع کیا۔ کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی، اس لیے وہ لوگ ہم ہیں ورنہ ہماری اولاد ہو گی جو (کہ اب دور) اسلام میں پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ہم دور جاہلیت کی پیدائش ہیں۔ یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر) تشریف لائے اور فرمایا: ”وہ تو وہ لوگ ہیں جو نہ دم کریں (کروائیں) اور نہ کسی شے میں بدفالی سمجھیں اور نہ (علاج کے لیے آگ سے) داغیں بلکہ اپنے اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں“۔ سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا: ”ہاں! (تو ان میں سے ہے)۔“ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ کیا میں بھی انہی میں سے ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس عکاشہ تم پر سبقت کر چکا۔“