ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس اور جو کہ غزوہ بدر میں موجود تھا سالم کو بیٹا بنا کر اس سے اپنی بھتیجی ہندہ دختر ولید بن عتبہ ربیعہ کا نکاح کر دیا۔ سالم ایک انصاری عورت کا غلام تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بیٹا بنا لیا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا قاعدہ تھا اگر کوئی کسی کو بیٹا بناتا تو لوگ اسی کی طرف منسوب کر کے پکارتے تھے اور اس کے مرنے کے بعد وہ وارث بھی ہوتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”منہ بولے (لے پالک) بیٹوں کو ان کے اصلی باپ کا بیٹا کہہ کر پکارو ....“(احزاب: 5) تو وہ سب اپنے حقیقی باپوں کے نام سے پکارے جانے لگے او اگر اس کا باپ معلوم نہ ہوتا تو مولیٰ اور دینی بھائی کہا جائے گا۔ بعدازاں سہلہ بنت سہیل بن عمرو قریشی عامری نے، جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا جانتے تھے اب اللہ نے جو حکم بھیجا ہے وہ آپ کو معلوم (مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟) پھر پوری حدیث بیان کی۔