4. اللہ تعالیٰ کا قول ”اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سے دکھ دینے والی باتیں بھی سننا پڑیں گی“ (سورۃ آل عمران: 186)۔
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر (شہر) فدک کی (بنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں ایک مجلس پر سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بیٹھا تھا، اس وقت تک عبداللہ بن ابی (ظاہر میں بھی) مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ہر قسم کے لوگ تھے کہ کچھ مسلمان کچھ مشرک بت پرست اور کچھ یہود۔ اس مجلس میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک سے لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر پڑے اور ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبداللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگرچہ تیرا کلام بہت اچھا ہے، اگر یہ سچ ہے تو بھی ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ عبداللہ بن ابی رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا خطاکار ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالم گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو چپ کرانے لگے، آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا: ”اے سعد! تو نے ابوحباب کی باتیں نہیں سنیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوحباب سے عبداللہ بن ابی مراد تھا، اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔“ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبداللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اس حق کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصور معاف کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی عادت مبارکہ تھی کہ بت پرستوں اور یہودیوں کی ایسی ایسی ناشائستہ حرکات کو معاف کر دیا کرتے تھے جیسے کہ اللہ نے ان کو حکم فرمایا تھا: ”اور یقیناً تم بہت سی دل آزادی کی باتیں ان سے بھی سنو گے جنہیں تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے اور ان سے بھی جو مشرک ہیں اور اگر تم صبر کرو تو یہ بڑے عزم و حوصلہ کی بات ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بہت سے اہل کتاب تو دل ہی سے چاہتے ہیں کہ تمہیں ایمان (لے آنے) کے بعد پھر سے کافر بنا لیں، حسد کی راہ سے جو ان کے دلوں میں ہے۔“ آخرت آیت تک۔ اور ان کی ایذادہی پر صبر کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان سے لڑنے کا حکم دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں جنگ کی تو بڑے بڑے قریش کے رئیسوں کو اللہ نے قتل کرایا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست تھے کہا کہ اب (تو اس دین میں شریک ہونے کا) موقع آن پہنچا (کہ اس کا غلبہ ہو گیا) تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کر لو۔ اس پر وہ سب (ظاہری طور پر) مسلمان ہوئے۔