سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے تو وہ ایک شخص کو پکڑ لائے جو قوم بنی حنیفہ میں سے تھا اور اسے ثمامہ بن اثال کہتے تھے، پھر اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس جا کر کہا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“(کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمد! میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے تو بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ میں نے بھی جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اور اگر آپ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے، جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟“ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ احسان کر کے چھوڑ دیں گے تو میں شکرگزار ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا: ”اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟“ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثمامہ کو آزاد کر دو۔“ لوگوں نے تعمیل کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ ایک تالاب پر جو مسجد کے قریب تھا، گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے محمد! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا چہرہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ کا چہرہ دیکھ کر آتا تھا۔ اب آج کے دن آپ کا چہرہ مبارک سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے اور اللہ کی قسم آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا، آپ کے سواروں نے مجھ گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارکباد دی اور اسے عمرے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ تم بےدین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم! بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہ دیں گے۔