سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہود کے عالم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر پہنچی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین باتیں پوچھتا ہوں، پیغمبر کے سوا کوئی اور ان کو نہیں جان سکتا (1) قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ (2) جنتی لوگ جنت میں جا کر پہلے کیا کھائیں گے؟ (3) بچہ اپنے باپ کے مشابہ کیوں ہوتا ہے اور اسی طرح اپنے ننہیال کے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھے یہ باتیں بتا دیں تو سیدنا عبداللہ نے کہا کہ یہ (جبرائیل) تمام فرشتوں میں سے یہود کا دشمن ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور پہلا کھانا جنتی لوگوں کا مچھلی کے کلیجے پر جو ٹکڑا لگا ہوتا ہے وہ ہو گا۔ بچہ کے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب مرد عورت سے صحبت کرتا ہے اگر مرد کا پانی آگے بڑھ جاتا ہے (غالب آ جاتا ہے)۔ تو بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر عورت کا پانی آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے مشابہ ہو جاتا ہے۔“ پس (عبداللہ بن سلام نے یہ سن کر) کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہودی نہایت جھوٹے لوگ ہیں، آپ کے پوچھنے سے پہلے اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ مجھے جھوٹا (برا) کہیں گے۔ (کبھی میری تعریف نہ کریں گے) یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عبداللہ بن سلام ایک کوٹھٹری میں چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (یہودیوں) سے پوچھا: ”عبداللہ بن سلام تم میں کیسا آدمی ہے؟“ انھوں نے کہا عبداللہ بن سلام عالم ہیں اور عالم کے بیٹے اور سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر عبداللہ مسلمان ہو جائے (کیا تم بھی مسلمان ہو جاؤ گے)؟، انھوں نے کہا کہ اللہ انھیں اس (مسلمان ہونے) سے بچائے رکھے۔ پس سیدنا عبداللہ کوٹھڑی سے نکلے اور کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔“ اس وقت یہودی کہنے لگے کہ ”تو ہم سب میں برا آدمی ہے اور سب سے برے شخص کا بیٹا ہے“ اور انھیں برا بھلا کہنے لگے۔