سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر والوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (یعنی خود ان) کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مالوں کی بابت معاملہ کیا تھا اور فرمایا تھا: ”جب تک اللہ تم کو قائم رکھے گا تو ہم بھی تم کو قائم رکھیں گے۔“ اور (اس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی جائداد پر جو وہاں گئے تو ان پر شب کے وقت ظلم کیا گیا اور ان کے دونوں ہاتھ اور پاؤں توڑ دیے گئے اور ان یہودیوں کے سوا کوئی ہمارا دشمن وہاں نہیں ہے وہی ہمارے دشمن ہیں اور ہمارا شبہ انھیں پر ہے اور اب میں ان کا جلاوطن کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کا مضبوط ارادہ کر لیا تو ابوحقیق کی اولاد میں سے کوئی شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ ہم کو نکالے دیتے ہیں حالانکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں قائم کیا تھا اور (یہاں کے) مالوں کی بابت ہم سے معاملہ کیا تھا اور اس بات کی ہمارے لیے شرط کر لی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بھول گیا ہوں (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) کہ تیرا کیا حال ہو گا جب تو خیبر سے نکالا جائے گا، تیرا اونٹ تجھے راتوں میں پے درپے لیے پھرے گا۔ اس نے کہا یہ تو ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مذاق تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بولتا ہے تو پھر ان کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نکال دیا اور جو کچھ ان کا تھا میوہ جات، اونٹ اور دوسرے اسباب یعنی کجاوے اور رسیوں وغیرہ کی قسم سے ان کی قیمت انھیں دے دی۔