ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر میں جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے پھر ان میں سے جس کے نام قرعہ نکل آتا تو اسی کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ پس ایک جہاد میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ہم لوگوں کے درمیان قرعہ ڈالا تو میرے نام پر قرعہ نکلا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ حکم حجاب کے نزول کے بعد کا ہے پس میں اس سفر میں ہودج (پردے والی ڈولی) کے اندر بٹھا دی جاتی تھی اور ہودج سمیت اتار لی جاتی تھی۔ پس ہم چلے یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت کوچ کا اعلان کرا دیا۔ پس جب لوگوں میں روانگی کے لیے منادی ہوئی تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور (قضائے حاجت کے لیے) گئی یہاں تک کہ میں لشکر سے آگے بڑھ گئی پھر جب میں حاجت سے فارغ ہوئی تو (اونٹ کے) کجاوے کے پاس آئی پھر میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ پھیرا تو اچانک معلوم ہوا کہ ظفار کے کالے نگینوں کا ہار جو میں پہنے ہوئے تھی، گر گیا ہے لہٰذا میں اپنے ہار کو تلاش کرتی ہوئی واپس ہوئی اور اس کو ڈھونڈنے میں مجھے دیر ہو گئی اور جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے وہ آئے اور انھوں نے میرے ہودج کو اٹھایا اور میرے اونٹ پر جس پر میں سوار ہوتی تھی رکھ دیا۔ وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اسی میں ہوں۔ (کیونکہ) اس دور میں عورتیں عموماً ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، بھاری نہ تھیں نہ ان کے جسم پر زیادہ گوشت تھا اور وہ غذا بھی بہت کم کھاتی تھیں۔ لہٰذا جب لوگوں نے اس ہودج کو اٹھایا تو اس کو معمول کے موافق سمجھ کر اٹھا لیا کیونکہ میں اس وقت ایک کم سن (دبلی پتلی) لڑکی تھی۔ پھر وہ اونٹ کو اٹھا کر چل دیے پھر لشکر کے نکل جانے کے بعد میں نے اپنا ہار پا لیا اور جہاں قافلہ اترا ہوا تھا واپس آئی مگر وہاں کوئی نہ تھا تب میں اس جگہ جا کر بیٹھ گئی جہاں پر اتری تھی۔ میں نے یہ خیال کیا جب لوگ مجھ کو (قافلہ میں) نہ پائیں گے تو اسی جگہ لوٹ کر آئیں گے۔ پس اسی حالت میں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی میری آنکھیں نیند کے سبب سے مجھ کو بھاری معلوم ہونے لگیں اور نیند مجھ پر غالب آ گئی۔ صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو بعد میں ذکوانی ہو گئے، لشکر کے پیچھے تھے وہ صبح کو میری منزل پر پہنچے اور وہ دور سے ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر میرے پاس آئے چونکہ انھوں نے مجھ کو پردے کے حکم سے پہلے دیکھا تھا لہٰذا مجھ کو پہچان لیا اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ میں ان کی انا للہ کی آواز سن کر بیدار ہوئی پھر انھوں نے اپنے اونٹ کو بٹھا لیا اور اس کے اگلے پاؤں کو موڑ دیا (تاکہ میں بغیر کسی کی مدد کے خود سوار ہو سکوں)۔ پس میں اونٹ پر سوار ہو گئی۔ وہ اونٹ کو ہانکتے ہوئے پیدل چلے اور قافلہ میں اس وقت پہنچے جب دوپہر کو لوگ آرام کرنے کے لیے اتر چکے تھے۔ پس جن لوگوں کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گئے یعنی میرے اوپر صفوان کے ساتھ تہمت لگائی اور جس شخص نے یہ طوفان اٹھایا وہ عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) تھا۔ پس جب ہم لوگ مدینہ پہنچے تو میں ایک مہینے تک بیمار رہی اور لوگ طوفان کا پرچار کرتے رہے اور مجھے اپنی بیماری میں بارہا یہ خیال آتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مہربانی نہیں دیکھتی جو میں اپنی بیماری کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے دیکھا کرتی تھی۔ اب صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور سلام کرتے اس کے بعد فرماتے ہیں: ”تم کیسی ہو؟“ اور مجھے اس بارے میں کسی بات کا علم نہ تھا کہ اصل وجہ ناخوشی کی یہ طوفان ہے۔ میں بہت کمزور ہو گئی۔ (ایک رات) میں اور مسطح کی والدہ مناصع کی طرف جہاں ہماری قضائے حاجت کی جگہ تھی اور ہم صرف رات ہی کو وہاں پر قضائے حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور یہ واقعہ ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء بنائے جانے سے پہلے کا ہے اور ہم پرانے دور کے عربوں کی طرح جنگل میں یا باہر دور جا کر قضائے حاجت کرتے تھے۔ پس میں اور مسطح کی ماں جو ابورہم کی بیٹی تھیں جا رہی تھیں کہ اتفاقاً وہ اپنی چادر میں پھنس کر گر پڑیں تو انھوں نے کہا کہ ”مسطح ہلاک ہو جائے۔“ تو میں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ برا کلمہ منہ سے نکالا کیا تم ایسے شخص کو کوستی ہو جو غزوہ بدر میں شریک ہو چکا ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ اے بی بی! کیا تم نے نہیں سنا کہ ان لوگوں نے کیا طوفان اٹھایا ہوا ہے؟ پھر انھوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی ساری باتوں پر مطلع کیا۔ پس اس بہتان کو سن کر میری بیماری زیادہ شدید ہو گئی۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور انھوں نے سلام کیا اور فرمایا: ”تم کیسی ہو؟“ میں نے عرض کی کہ آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اپنے والدین کے پاس چلی جاؤں۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا اس سے منشا یہ تھا کہ اپنے والدین کے ہاں جا کر اس خبر کی تحقیق کر سکوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔ میں نے اپنی ماں سے وہ سب باتیں بیان کیں جن کا لوگ چرچا کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے بیٹی! تم اپنی جان پر سختی نہ کرو، اللہ کی قسم! کوئی حسین عورت کم ہی کسی شخص کے پاس ایسی ہوتی ہے کہ وہ مرد اس کو محبوب رکھتا ہو اور اس عورت کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر وہ سوکنیں اس کی برائیاں نہ کرتی ہوں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! میری سوکنوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ لوگ اس کا چرچا کر رہے ہیں۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے وہ رات صبح تک اس طرح گزاری کہ میرے آنسو نہ تھمے تھے اور نہ مجھے نیند آئی۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (امیرالمؤمنین سیدنا) علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہما) کو بلایا جب کہ اس بارے میں نزول وحی میں دیر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اپنی بیوی یعنی میرے فراق کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو (سیدنا) اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے تو اسی کے موافق مشورہ دیا جو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی کیفیت (یعنی اپنی بیوی کے ساتھ جس قدر محبت تھی) اس کا احساس تھا۔ لہٰذا سیدنا اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور اللہ کی قسم! ہم ان میں سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں جانتے۔ مگر (امیرالمؤمنین سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرگز تنگی نہیں کرتا اور عورتیں ان کے علاوہ بھی بہت سی ہیں اور آپ لونڈی سے دریافت فرمائیے، وہ (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کے بارے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ بیان کر دے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ (رضی اللہ عنہا) کو بلایا اور ان سے فرمایا: ”کیا تم نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں) کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شک دلائے؟“ انھوں نے جواب دیا: ”نہیں قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ان (خاتون) میں کبھی کوئی بھی ایسی بات نہیں دیکھی جس کی وجہ سے میں ان پر (شک کروں یا ان پر) عیب لگا سکوں، سوائے اس کے کہ وہ ایک کم سن لڑکی ہیں (اپنے گھر کی کلی طور پر خبرگیری نہیں رکھتیں حتیٰ کہ) آٹا گوندھ کر (اور اس کو ویسا ہی گوندھا ہوا چھوڑ کر) سو جاتی ہیں بکری آتی ہے اور اس کو کھا جاتی ہے۔“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت کھڑے ہو گئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے مقابلے میں (جس نے یہ طوفان اٹھایا تھا) نصرت طلب کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کے مقابلے میں جس کے سبب سے مجھ کو اپنے گھر والوں کے بارے میں اذیت پہنچی ہے، کون میری مدد کرتا ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم میں اپنے گھر والوں میں اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور ان لوگوں نے ایک ایسے شخص کو (اس تہمت میں) ذکر کیا ہے کہ میں اس میں بھی سوائے اچھائی کے کچھ نہیں دیکھتا اور خود میرے گھر میں وہ جب آئے ہیں تو میرے ساتھ ہی آئے ہیں۔“ پس سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہم اس شخص کے مقابلے میں آپ کی مدد کریں گے۔ اگر وہ قبیلہ اوس سے ہوتا تو فوراً ہم اس کی گردن مار دیتے اور اب چونکہ وہ قبیلہ خزرج میں سے ہے لہٰذا آپ ہم کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیں ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ اس کے بعد سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے وہ اچھے آدمی تھے مگر ان کو قومی حمیت نے برانگیختہ کیا اور انھوں نے (سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے) کہا کہ اللہ کی قسم! تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ تو اس کو قتل کر سکے گا اور نہ ہی تو اس بات پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ (جو قبیلہ اوس سے تھے) کھڑے ہو گئے اور انہوں نے (سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے) کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ کہتے ہو، ہم بلا شبہ اس کو قتل کر دیں گے، تو منافق ہے کیونکہ منافقوں کی طرف سے جھگڑا کرتا ہے۔ پس دونوں قبیلے اوس اور خزرج بگڑ بیٹھے یہاں تک کہ انھوں نے (باہم لڑنے کا) ارادہ کر لیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور ان کو خاموش کیا یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سکوت فرمایا: ”ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اس روز بھی روتی ہی رہی نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی، پھر صبح کو میرے ماں باپ میرے پاس آئے اور میں دو راتیں اور ایک دن رو چکی تھی (اور برابر آنسو جاری تھے) یہاں تک کہ میں خیال کرتی تھی کہ یہ رونا میرا کلیجہ شق کر دے گا۔ پھر کہتی ہیں کہ اسی حال میں کہ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اچانک ایک انصاری خاتون نے (میرے پاس آنے کی) اجازت طلب کی میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی پس ہم اسی طرح رو رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جس دن سے یہ طوفان اٹھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیٹھتے ہی نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک (وحی کے انتظار میں) توقف کیا مگر میرے بارے میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا، اس کے بعد فرمایا: ”اے عائشہ! مجھ کو تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پس اگر تم (اس تہمت سے) بری ہو تو عنقریب اللہ تم کو بری ظاہر فرما دے گا اور اگر تم واقعی کسی گناہ میں آلودہ ہو چکی ہو تو اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو اس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔“ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو مکمل کر چکے تو میرے آنسو (اچانک) خشک ہو گئے، ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد (امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دیجئیے تو انھوں نے کہا اللہ کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں؟ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دو مگر انھوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا عرض کروں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں پس میں نے عرض کی، حالانکہ میں کمسن تھی، بہت قرآن بھی پڑھی ہوئی نہ تھی، کہ اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگوں نے اس بات کو سنا ہے جس کا لوگ چرچا کر رہے ہیں اور وہ آپ کے دلوں میں جم گئی ہے اور آپ لوگوں نے تقریباً اس کو سچ سمجھ لیا ہے اور بیشک اگر میں آپ سے کہوں گی کہ میں (اس الزام سے) بری ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ بیشک میں بری ہوں تو آپ لوگ غالباً مجھے سچا نہ سمجھیں گے اور بیشک اگر میں کسی بات کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں (اس تہمت سے) پاک ہوں تو یقیناً آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور آپ کی مثال کچھ نہیں پانی مگر یوسف کے والد (اور ان کے بھائیوں کی حالت) کو، جب ان کے والد بزرگ نے کہا: ”پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔“(یوسف: 18) اس کے بعد میں نے اپنا رخ اپنے بستر کی طرف کر لیا اور میں امید رکھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری فرما دے گا مگر اللہ کی قسم! مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ میرے اس معاملہ میں وحی نازل ہو گی اور بیشک میں اپنے دل میں اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتی تھی کہ قرآن مجید میں میرے اس معاملہ کا ذکر ہو گا بلکہ میں تو اس بات کی امید رکھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے میں کوئی خواب دیکھیں گے اور وہ خواب میری برات کر دے گا۔ پس اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام سے ہٹے بھی نہیں تھے اور نہ گھر کے لوگوں میں سے کوئی شخص باہر نکلا تھا کہ اسی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہی حالت طاری ہو گئی جو نزول وحی کے وقت طاری ہوا کرتی تھی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی پیشانی مبارکہ) سے پسینہ مثل موتیوں کے ٹپکنے لگتا تھا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حالت دور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہنس رہے تھے اور سب سے پہلے جو الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے فرمائے وہ یہ تھے: ”اے عائشہ! تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات کا اظہار فرما دیا۔“ میری والدہ نے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (شکریہ ادا کرنے کے لیے) کھڑی ہو جاؤ میں نے کہا نہیں، اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور نہ میں اللہ کے سوا کسی کا شکر ادا کروں گی۔ پس اللہ تعالیٰ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: ”جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے ....“(سورۃ النور آیت نمبر 11) پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل فرمائیں تو امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے، جو پہلے مسطح بن اثاثہ کو قرابت کی وجہ سے کچھ امداد کے طور پر دیا کرتے تھے، یہ قسم کھا لی کہ مسطح کو اس کے بعد کہ انھوں نے (ام المؤمنین) عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی نسبت ایسا کچھ کہا اب کچھ بھی نہ دوں گا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انھیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیے، بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟“ اور اللہ غلطیوں کو معاف فرمانے والا بڑا مہربان ہے“(سورۃ النور آیت نمبر 22) پھر انھوں نے مسطح کو وہی دینا اختیار کر لیا جو ان کو دیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے میرے معاملہ کی نسبت دریافت فرمایا: ”اے زینب! تم کیا جانتی ہو، تم نے کیا دیکھا ہے؟“ تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں کان اور آنکھ کو جھوٹ سے بچاتی ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ان (یعنی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا) میں سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں جانتی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا میری برابر کی تھیں مگر اللہ نے ان کو بوجہ ان کی پرہیزگاری کے، میری بدگوئی سے بچا لیا۔“