- (اما قطع السبيل؛ فإنه لا ياتي عليك إلا قليل حتى تخرج العير إلى مكة بغير خفير. واما العيلة؛ فإن الساعة لا تقوم حتى يطوف احدكم بصدقته؛ لا يجد من يقبلها منه، ثم ليقفن احدكم بين يدي الله ليس بينه وبينه حجاب ولا ترجمان يترجم له، ثم ليقولن له: الم اوتك مالا؟! فليقولن: بلى. ثم ليقولن: الم ارسل إليك رسولا؟! فليقولن: بلى. فينظر عن يمينه؛ فلا يرى إلا النار، ثم ينظر عن شماله؛ فلا يرى إلا النار. فليتقين احدكم النار ولو بشق تمرة، فإن لم يجد؛ فبكلمة طيبة).- (أمّا قطْعُ السّبيل؛ فإنّه لا يأْتي عليك إلا قليلٌ حتّى تخرجَ العيرُ إلى مكةَ بغير خَفيرٍ. وأمّا العَيلةُ؛ فإن السّاعةَ لا تقومُ حتّى يطوفَ أحدُكم بصدَقته؛ لا يجدُ من يقبلُها منه، ثم لَيَقِفَنَّ أحدُكم بين يديِ اللهِ ليس بينَه وبينَه حجابٌ ولا تُرجُمان يترجمُ له، ثم ليقولنّ له: أَلم أُوتكَ مالاً؟! فليقولنَّ: بلى. ثمّ ليقولنّ: ألمْ أرْسل إليكَ رسُولاً؟! فليقولَنّ: بلى. فينظرُ عن يمينه؛ فلا يرى إلا النّار، ثم ينظرُ عن شِمالِه؛ فلا يرى إلا النّار. فلْيَتقيَنَّ أحدُكم النّارَ ولو بشقِّ تمرةٍ، فإنْ لم يجدْ؛ فبكلمةٍ طيّبةٍ).
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ کے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک نے فقر و فاقہ کی اور دوسرے نے راستے کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا مسئلہ راستے کے غیر محفوظ ہونے کا، تو تھوڑا عرصہ ہے، اس کے بعد (اتنا امن ہوگا کہ) غلے والے قافلے بھی مکہ کی طرف بغیر محافظ کے روانہ ہوں گے اور جہاں تک غربت و افلاس کا تعلق ہے، تو (اس کی فکر نہ کرو) قیامت کے برپا ہونے سے پہلے تم میں سے ایک آدمی صدقہ لے کر گھومے گا لیکن (مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے) وہ ایسا فرد نہیں پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کرے۔ (یاد رکھو کہ) تم میں سے ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو گا اور دونوں کے درمیان پردہ ہو گا نہ ترجمانی کرنے والا ترجمان۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیا میں نے تجھے مال دیا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیا میں نے تیری طرف رسول بھیجا تھا؟ وہ کہے گا، کیوں نہیں۔ پس جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھے گا تو صرف آگ نظر آئے گی اور بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی صرف آگ نظر آئے گی۔ ہر کوئی آگ سے بچے، اگرچہ کھجور کے ٹکڑے کے ساتھ، اگر وہ بھی نہ ہو تو اچھی بات کے ساتھ۔“