- (إذا خلص المؤمنون من النار وامنوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مجادلة احدكم لصاحبه في الحق يكون له في الدنيا باشد من مجادلة المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين ادخلوا النار. قال: يقولون: ربنا:! إخواننا كانوا يصلون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحجون معنا؛ [ويجاهدون معنا] ؛ فادخلتهم النار. قال: فيقول: اذهبوا فاخرجوا من عرفتم منهم؛ فياتونهم؛ فيعرفونهم بصورهم؛ لا تاكل النار صورهم؛ [لم تغش الوجه] ؛ فمنهم من اخذته النار إلى انصاف ساقيه؛ ومنهم من اخذته إلى كعبيه (¬1) [فيخرجون منها بشرا كثيرا] ؛ فيقولون: ربنا! قد اخرجنا من امرتنا. قال: ثم [يعودون فيتكلمون فـ] يقول: اخرجوا من كان في قلبه مثقال دينار من الإيمان. [فيخرجون] ¬ (¬1) الاصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)): ركبتيه)). قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)). وفي ((البخاري)): ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقا كثيرا]، ثم [يقولون: ربنا! لم نذر فيها احدا ممن امرتنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزن نصف دينار [فاخرجوه. فيخرجون خلقا كثيرا، ثم يقولون: ربنا! لم نذر فيها ممن امرتنا... ] ؛ حتى يقول: اخرجوا من كان في قلبه مثقال ذرة. [فيخرجون خلقا كثيرا]، قال ابو سعيد: فمن لم يصدق بهذا الحديث فليقرا هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه اجرا عظيما) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد اخرجنا من امرتنا؛ فلم يبق في النار احد فيه خير. قال: ثم يقول الله: شفعت الملائكة؛ وشفعت الانبياء؛ وشفع المؤمنون؛ وبقي ارحم الراحمين قال: فيقبض قبضة من النار- او قال: قبضتين - ناسا لم يعملوا خيرا قط؛ قد احترقوا حتى صاروا حمما. قال: فيؤتى بهم إلى ماء يقال له: (الحياة) ؛ فيصب عليهم؛ فينبتون كما تنبت الحبة في حميل السيل؛ [قد رايتموها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان اخضر؛ وما كان منها إلى الظل كان ابيض] ؛ قال: فيخرجون من اجسادهم مثل اللؤلؤ؛ وفي اعناقهم الخاتم؛ (وفي رواية: الخواتم): عتقاء الله. قال: فيقال لهم: ادخلوا الجنة؛ فما تمنيتم ورايتم من شيء فهو لكم [ومثله معه]. [فيقول اهل الجنة: هؤلاء عتقاء الرحمن ادخلهم الجنة بغير عمل عملوه؛ ولا خير قدموه]. قال: فيقولون: ربنا! اعطيتنا ما لم تعط احدا من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي افضل منه. فيقولون: ربنا! وما افضل من ذلك؟ [قال:] فيقول: رضائي عنكم؛ فلا اسخط عليكم ابدا).- (إذا خَلصَ المؤمنونَ من النار وأَمِنُوا؛ فـ[والذي نفسي بيده!] ما مُجَادَلَةُ أحَدِكُم لصاحبِهِ في الحقِّ يكون له في الدنيا بأشدِّ من مجادلة المؤمنين لربِّهم في إخوانِهِمُ الذين أُدْخِلُوا النار. قال: يقولون: ربَّنا:! إخوانُنَا كانوا يصلُّون معنا؛ ويصومون , معنا؛ ويحُجُّون معنا؛ [ويُجاهدون معنا] ؛ فأدخلتَهم النار. قال: فيقولُ: اذهَبُوا فأخرِجُوا من عَرَفْتُم منهم؛ فيأتُونهم؛ فَيَعْرفونَهُم بِصُورِهم؛ لا تأكلُ النار صُوَرَهُم؛ [لم تَغْشَ الوَجْهَ] ؛ فَمِنْهم من أَخَذتْهُ النارُ إلى أنصافِ ساقَيْهِ؛ ومنهم من أخذته إلى كَعْبَيْه (¬1) [فَيُخرِجُونَ مِنْها بشراً كثيراً] ؛ فيقولون: ربَّنا! قد أَخْرَجنا مَنْ أَمَرتنا. قال: ثم [يَعُودون فيتكلمون فـ] يقولُ: أَخْرِجُوا من كان في قلبهِ مِثقالُ دينارٍ من الإيمانِ. [فيُخرِجُون] ¬ (¬1) الأصل: ((كفيه)) وعلى الهامش: ((في ((مسلم)): ركبتيه)). قلت: والتصويب من ((المسند)) ؛ و ((النسائي)) ؛و ((ابن ماجة)). وفي ((البخاري)): ((قدميه)) وفي رواية مسلم سويد بن سعيد؛ وهو متكلم فيه. خلقاً كثيراً]، ثم [يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها أحداً ممن أَمَرتَنا. ثم يقول: ارجعوا، فـ] من كان في قلبه وزنُ نصف دينارٍ [فأًخْرِجُوهُ. فيُخرِجونَ خلقاً كثيراً، ثم يقولون: ربَّنا! لم نَذَرْ فيها ممن أمرتنا... ] ؛ حتى يقول: أخرِجُوا من كان في قلبه مثقال ذَرَّةٍ. [فيخرجون خلقاً كثيراً]، قال أبو سعيد: فمن لم يُصّدِّقْ بهذا الحديث فليَقْرَأْ هذه الآية: (إن الله لايظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لَدُنْهُ أجراً عظيماً) [النساء /40] ؛ قال: فيقولون: ربنا! قد أَخْرَجْنا من أمرتنا؛ فلم يَبْقَ في النار أحدٌ فيه خيرٌ. قال: ثم يقول الله: شفعَتِ الملائكة؛ وشَفَعَتِ الأنبياء؛ وشَفَعَ المؤمنون؛ وبَقِيَ أرحم الراحمين قال: فَيَقْبضُ قبضةً من النار- أو قال: قَبْضَتَينِ - ناساً لم يعملوا خيراً قََطُّ؛ قد احتَرَقُوا حتى صاروا حُمَماً. قال: فَيُؤْتَى بهم إلى ماء يُقالُ له: (الحياةُ) ؛ فَيُصَبُّ عليهم؛ فَيَنْبُتُونَ كما تَنْبُتُ الحبَّةُ في حَمِيلِ السَّيلِ؛ [قد رَأَيْتُمُوها إلى جانب الصخرة؛ وإلى جانب الشجرة؛ فما كان إلى الشمس منها كان أخضر؛ وما كان منها إلى الظلِّ كان أبيض] ؛ قال: فَيَخْرُجُونَ من أجسادِهِم مِثلَ اللؤلؤِ؛ وفي أعناقهم الخاتمُ؛ (وفي رواية: الخواتِمُ): عُتَقاءُ الله. قال: فيُقالُ لَهُمُ: ادخلوا الجنة؛ فما تمنَّيتمُ وَرَأيتُم من شيءٍ فهو لكُم [ومِثلُهُ مَعَهُ]. [فيقول أهل الجنة: هؤلاء عُتقاءُ الرحمن أَدْخَلَهُمُ الجنة بغيرِ عملٍ عَمِلُوهُ؛ ولا خيرٍ َقدَّمُوهُ]. قال: فيقولون: ربَّنا! أَعَطَيْتَنا ما لم تُعطِ أحداً من العالمين. قال: فيقول: فإن لكم عندي أفْضَلَ منه. فيقولون: ربَّنا! وما أَفْضَلُ من ذلكَ؟ [قال:] فيقولُ: رِضائي عَنْكُم؛ فلا أَسْخَطُ عليكم أبداً).
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤمن جہنم کی آگ سے بچ جائیں گے اور بے فکر ہو جائیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے مومن بھائیوں کے بارے میں اپنے رب سے بہت زور شور سے بحث و مباحثہ کریں گے، جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کے دنیوی حق کو حاصل کرنے کے لیے جھگڑتا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے بھائی، جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، روزے رکھتے حج ادا کرتے اور جہاد کرتے تھے، تو نے ان کو آگ میں دا خل کر دیا ہے، (ایسا کیوں ہے)؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جاؤ، جن کو پہچانتے، ہو، انہیں نکال لاؤ۔ وہ ان کے پاس جائیں گے، انہیں ان کی شکلوں سے پہچانیں گے، کیونکہ آگ ان کی صورتوں یعنی چہروں کو نہیں جلائے گی، کسی پر آگ کا اثر نصف پنڈلی تک ہو گا اور کسی پر گھٹنوں تک، وہ وہاں سے بہت سے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا، ہم ان کو نکال لائے ہیں۔ وہ پھر وہی بات کریں گے (کہ ہمارے بھائی جہنم میں ہیں)، جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ وہ جائیں گے اور بہت سارے انسانوں کو نکال لائیں گے اور کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جن کو نکالنے کا حکم دیا ہم نے ان میں کسی کو نہیں چھوڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تیسری بار چلو اور جس کے دل میں نصف دینار کے وزن کے بقدر ایمان ہے، اسےبھی جہنم سے باہر نکال لاؤ۔ وہ بہت سے لوگوں کو نکال کر پھر کہیں گے: اے ہمارےرب! تو نے جن کا حکم دیا، ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا حتی کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے، اسے بھی نکال لاؤ۔ سو وہ بہت سوں کو نکال لائیں گے۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو آدمی اس حدیث کی تصدیق نہ کرے وہ یہ آیت پڑھے: «إِنَّ اللَّـهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا»”اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اگر (کسی کی) کوئی نیکی ہو گی تو وہ اسے کئی گنا بڑھا دے گا اور اپنی جناب سے اجر عظیم عطا کرے گا۔“(۴-النساء:۴۰) پھر وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تیرے حکم کے مطابق ہم (ذرہ برابر ایمان والوں) کو بھی جہنم سے نکال لائے ہیں، اب وہاں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس کے دل میں کوئی خیر ہو۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: فرشتے سفارش کر چکے، انبیاء سفارش کر چکے اور مومنوں نے بھی سفارش کر لی۔ اب صرف «ارحم الراحمين» باقی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ خود جہنم سے ایسے لوگوں کی ایک یا دو مٹھیاں بھر کر لائیں گے، جنہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا ہو گا۔ وہ جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ ان کو ”حیاۃ“ نامی پانی کے پاس لایا جائے گا اور ان پر یہ پانی بہایا جائے گا، ان کا جسم سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں اگنے والے دانے کی طرح اگے گا۔ تم لوگوں نے کسی چٹان یا درخت کے پاس ایسا دانہ اگتا ہوا دیکھا ہو گا، سورج کی سمت میں اگنے والے بوٹے سبز اور سائے میں اگنے والے سفید ہوتے ہیں۔ اس پانی کے بہانے سے ان کے جسم موتی کی طرح ہو جائیں گے اور ان کی گردنوں میں «عُتَقَا ءُالله» کی مہر ہو گی۔ انہیں کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ، جو کچھ تمنا کرو گے اور جو کچھ دیکھو گے، وہ اور مزید اس کی مثل بھی تمہیں دیا جائے گا۔ اہل جنت کہیں گے: یہ لوگ رحمٰن کے آزاد شدہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بغیر کسی عمل اور بغیر کسی خیر و بھلائی کے جنت میں داخل کر دیا ہے۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میرے پاس تمہارے لیے اس سے بھی افضل چیز ہے۔ وہ پوچھیں گے: ہمارے رب! وہ افضل چیز کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، اب تم پر کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔ “