- (يا ابا رافع! إنها لم تامرك إلا بخير. اي: بالوضوء من الريح).- (يا أبا رافعٍ! إنّها لم تَأْمُرْكَ إلا بخيرٍ. أي: بالوضوءِ من الريحِ).
زوجہ رسول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی یا آپ کے غلام ابورافع کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابورافع کی شکایت کرنے کی اجازت چاہی، جس نے اسے مارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع سے پوچھا: ”ابورافع! تیرا اور اس کا کیا معاملہ ہے۔“ اس نے کہا: یہ مجھے تکلیف دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمی! تو نے اس کو کیا تکلیف دی ہے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو کوئی تکلیف نہیں دی، (اصل بات یہ ہے کہ) نماز کی حالت میں یہ بے وضو ہو گیا، میں نے اس سے کہا: ابورافع! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر کسی کی ہوا نکل جائے تو وہ دوبارہ وضو کرے۔ طبرانی کے الفاظ یہ ہیں: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ دوبارہ وضو کرے۔“(میری یہ بات سن کر) یہ اٹھا اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات پر مسکرانے لگے اور فرمایا: ”ابورافع! اس نے تجھے بھلائی کا حکم ہی دیا تھا۔“