- (مضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، واستخلف على المدينة ابا رهم كلثوم بن حصين الغفاري. وخرج لعشر مضين من رمضان، فصام رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وصام الناس معه، حتى إذا كان بـ (الكديد)- (مضى رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، واستخلف على المدينة أبا رُهْمٍ كلثوم بن حُصين الغفاري. وخرج لعشر مضين من رمضان، فصام رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وصام الناس معه، حتى إذا كان بـ (الكديد)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی دس تاریخ کو (مدینہ) سے نکلے اور مدینہ پر ابورہم کلثوم بن حصین غفاری کو اپنا نائب مقرر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزے سے تھے اور لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور کدید کے مقام پر پہنچ گئے، جو عسفان اور امج کے درمیان واقع تھا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔ پھر چل پڑے اور (مکہ کے قریب ایک مقام) مرّالظھران پر اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مسلمانوں کا لشکر تھا۔ مزینہ اور سلیم کے لوگ بھی تھے، کیونکہ ہر قبیلے سے کافی لوگ مسلمان ہو چکے تھے، رہا مسئلہ مہاجرین و انصار کا، تو وہ تو سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، کوئی ایک بھی پیچھے نہ رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظھران میں پڑاؤ ڈالا، ادھر قریش بالکل غافل تھے، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی اور وہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کیا کرنے والے ہیں؟ اس رات ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا جاسوسی کرنے اور جائزہ لینے کے لیے نکلے کہ کیا کوئی خبر موصول ہوتی ہے یا کوئی بات سنائی دیتی ہے۔ عباس بن عبدالمطلب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی تھی، یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی مقام پر ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اور عبداللہ بن ابوامیہ بن مغیرہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو چکی تھی، (اس لیے وہ جاسوسی کرنے کے لیے نکلے تھے)۔ جب ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ چلا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چاہا اور ان کے لیے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سفارش کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! (عبداللہ بن امیہ) آپ کے چچے کا بیٹا ہے اور (ابوسفیان) آپ کی پھوپھی کا بیٹا اور آپ کا سسر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں، اس چچازاد نے میری توہین کی تھی اور اس پھوپھی زاد اور سسر نے تو مکہ میں مجھے بہت کچھ کہا تھا۔“ جب ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کا علم ہوا تو ابوسفیان، جبکہ اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، نے کہا: اللہ کی قسم! یا تو آپ ہمیں اجازت دیں گے یا پھر اپنے اس بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ہم زمین (کی کسی جہت کی طرف) نکل جائیں گے اور پیاس اور بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس بات کا علم ہوا تو آپ نرم پڑ گئے اور ان کو آنے کی اجازت دے دی۔ سو وہ داخل ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرالظھران میں اترے ہوئے تھے تو عباس نے کہا تھا: ہائے قریشیوں کی صبح! اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نہ لے سکے اور آپ زبردستی مکہ میں گھس گئے تو ہمیشہ کے لیے قریش ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر بیٹھا اور نکل پڑا، یہاں تک کہ اراک پہنچ گیا، میرا خیال تھا کہ شاید کوئی لکڑیاں جمع کرنے والا یا کوئی دودھ والا یا مکہ کی طرف جانے والا کوئی ضرورت مند مل جائے گا، (تو میں اسے ساری صورتحال سے آگاہ کر دوں گا) اور وہ ان کو بتلا دے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں مقام تک پہنچ چکے ہیں، تاکہ وہ آپ کے پاس پہنچ کر آپ سے امان طلب کر لیں، قبل اس کے کہ آپ بزور مکہ مکرمہ میں داخل ہوں۔ عباس کہتے ہیں: بخدا! میں خچر پر جا رہا تھا اور اپنے مقصود کی تلاش میں تھا، اچانک میں نے ابوسفیان اور بدیل بن ورقا کی آوازیں سنیں، وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے، ابوسفیان یہ کہہ رہا تھا: یہ جو آج بہت ساری آگ اور لشکر نظر آ رہا ہے، یہ تو میں پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں۔ جبکہ بدیل یہ کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! یہ خزاعہ کی آگ ہے، لڑائی نے ان کو آگ لگا رکھی ہے۔ لیکن ابوسفیان نے اس کا یوں جواب دیا: خزاعہ اس سے ذلیل، کمینے اور رذیل ہیں کہ یہ آگ اور لشکر ان کا ہو۔ عباس کہتے ہیں: میں نے اس کی آواز پہچان لی اور اسے آواز دی: ابوحنظلہ! اس نے میری آواز پہچان لی اور کہا: ابوالفضل ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: تجھے کیا ہوا ہے؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔ میں نے کہا: ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ آ گئے ہیں، ہائے قریش کی صبح! اس نے کہا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں، اب کیا کیا جائے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر قابو پا لیا تو تیری گردن کاٹ دیں گے، تو اس طرح کر کہ میرے ساتھ اس خچر پر سوار ہو جا، میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتا ہوں اور تیرے لیے امان طلب کرتا ہوں۔ وہ (ابوسفیان) میرے پیچھے سوار ہو گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے، میں اس کو لے کر آ گیا، میں جب بھی مسلمانوں کی آگ کے پاس سے گزرتا تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے: یہ کون ہے؟ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر دیکھتے تو کہتے: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا اس پر سوار ہے۔ جب میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی آگ سے گزرا تو انہوں نے کہا: یہ کون ہے؟ پھر وہ کھڑے ہو کر میری طرف آئے اور جب سواری کے پچھلے حصے پر ابوسفیان کو دیکھا تو کہا: ابوسفیان ہے، اللہ کا دشمن، اللہ کی تعریف ہے، جس نے عقد و عہد کے بغیر ہمیں تجھ پر قادر بنا دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے، میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی، میں ان سے اتنا آگے نکل گیا، جتنا سست رفتار جانور سست رفتار آدمی سے آگے نکل جاتا ہے۔ میں نے خچر سے چھلانگ لگائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ابوسفیان ہے، اللہ تعالیٰ نے بغیر عقد و عہد کے ہمیں اس پر قادر بنا دیا ہے، مجھے اجازت دو، میں اس کی گردن اتار دیتا ہوں۔ میں (عباس) نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو پناہ دی ہے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اس کے سر کو پکڑا اور کہا: اللہ کی قسم! میرے علاوہ آپ سے کوئی بھی سرگوشی نہیں کر سکتا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ سیدنا عمر تو اس کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کر رہے ہیں تو میں نے کہا: عمر! ٹھہر جاؤ، اللہ کی قسم! اگر یہ (سفیان) بنوعدی بن کعب سے ہوتا تو تم یہ باتیں نہ کرتے، وجہ یہ ہے کہ یہ بنو عبدمناف میں سے ہے۔ آگےسے انہوں نے کہا: عباس! رہنے دو اس بات کو، اللہ کی قسم! عباس! جس دن تم مسلمان ہوئے تو تمہارا اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے زیادہ محبوب تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کے اسلام کی بہ نسبت تمہارا اسلام زیادہ محبوب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عباس! اس کو اپنی رہائش گاہ پر لے جاؤ، صبح کے وقت دوبارہ لے آنا۔“ پس میں اس کو اپنی رہائش گاہ میں لے گیا، اس نے میرے پاس رات گزاری، جب صبح ہوئی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: ”ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے، کیا وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ تجھے بھی اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کا علم ہو جائے؟!“ اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنے معزز ہیں، کتنے بردبار ہیں اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں! اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے کفایت کر چکا ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفیان! تو ہلاک ہو جائے، کیا وہ وقت قریب آ چکا ہے کہ تجھے بھی میری رسالت کے برحق ہونے کا علم ہو جائے؟!“ اس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنے بردبار ہیں، کتنے معزز ہیں اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں! اللہ کی قسم! اس وقت تک تو میرے دل میں کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوسفیان! تو ہلاک ہو جائے! اسلام قبول کر اور اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دے، قبل اس کے کہ تیری گردن اتار دی جائے۔ پس اس نے شہادت حقہ کا اقرار کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ میں (عباس) نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک ابوسفیان اس فخر (یعنی عہد و منصب) کو پسند کرتا ہے، اس لیے اس سلسلے میں اس کا اکرام کیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں، جو بندہ ابوسفیان کے گھر داخل ہو گیا اسے امن حاصل ہو جائے گا اور اپنا دروازہ بند کر دینے والے کو بھی امان دی جائے گی اور مسجد میں داخل ہونے والا بھی امن پائے گا۔“ جب وہ جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عباس! اس کو خطم الجبل کے پاس تنگ وادی میں روک لینا، تاکہ جب اﷲ تعالیٰ ٰ کے لشکر گزریں تو یہ دیکھ سکے۔“ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس کے ساتھ نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسی مقام پر اس کو روک لیا۔ قبائل اپنے اپنے جھنڈے لے کر گزرنے لگے۔ جب ایک قبیلے کا گزر ہوا تو یہ پوچھتا: یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سلیم قبیلے والے۔ پھر اس نے کہا: میرا سلیم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اتنے میں اگلا قبیلہ گزرا، اس نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: مزینہ قبیلے والے ہیں۔ اس نے کہا: میرا مزینہ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ایسے ہی ہوتا رہا یہاں تک کہ قبائل ختم ہو گئے، جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا تو یہ پوچھتا کہ یہ کون ہیں، میں کہتا کہ یہ فلاں قبیلے والے ہیں، پھر وہ کہتا کہ میرا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لشکر کے ساتھ گزرے، اس میں مہاجرین و انصار تھے، ہر طرف سے لوہے کی سیاہی نظر آ رہی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! عباس! یہ کون ہیں؟ میں نے کہا یہ مہاجرین و انصار کے جلو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس نے کہا: ابوالفضل! اللہ کی قسم! ان کے مقابلے کی کسی کو کوئی طاقت اور قدرت حاصل نہیں ہے، تیرے بھتیجے کی بادشاہت عظیم ہو گئی ہے؟ میں نے کہا: ابوسفیان! بیشک یہ نبوت ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں بالکل۔ میں نے کہا: اپنی قوم کے لیے نجات طلب کرو۔ پس وہ وہاں سے نکل پڑا اور اپنی قوم کے پاس پہنچ کر بلند آواز سے کہا: او قریشیو! یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے ہیں، ایسے لشکر کے ساتھ کہ تم میں جس کا مقابلہ کرنے کی کوئی قدرت نہیں ہے، (سنو) جو ابوسفیان کے گھر داخل ہو گا، وہ امن پائے گا۔ یہ سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ کھڑی ہوئی، اس کی مونچھیں پکڑیں اور کہا: قتل کر دو اس کالے رنگ کے ذلیل آدمی کو، قوم کا سرکردہ بندہ ہی قبیح ہو گیا ہے، اس نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو جائے! اپنے آپ کو دھوکے میں نہ ڈالو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس لشکر کے ساتھ آیا ہے، تم میں اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے، (سنو) جو بھی ابوسفیان کے گھر داخل ہوا، اسے امان مل جائے گی۔ انہوں نے کہا: تو ہلاک ہو جائے! تیرا گھر کتنوں کو کفایت کرے گا؟ اس نے کہا: اور جس نے اپنا دروازہ بند کر دیا، وہ بھی امن میں رہے گا اور جو مسجد میں داخل ہو گیا، وہ بھی امن پائے گا۔ (یہ سن کر) لوگ اپنے گھروں اور مسجد کی طرف چل پڑے۔