-" آخر من يدخل الجنة رجل، فهو يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة، فإذا ما جاوزها التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد اعطاني الله شيئا ما اعطاه احدا من الاولين والآخرين. فترفع له شجرة، فيقول: اي رب ادنني من هذه الشجرة لاستظل بظلها، واشرب من مائها، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم! لعلي إن اعطيتكها سالتني غيرها؟ فيقول: لا يا رب، ويعاهده ان لا يساله غيرها، وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة هي احسن من الاولى، فيقول: اي رب ادنني من هذه لاشرب من مائها، واستظل بظلها، لا اسالك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ - فيقول -: لعلي إن ادنيتك منها تسالني غيرها؟ فيعاهده ان لا يساله غيرها، وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي احسن من الاوليين، فيقول: اي رب ادنني من هذه لاستظل بظلها واشرب من مائها، لا اسالك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ قال: بلى يا رب، هذه لا اسالك غيرها، وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فإذا ادناه منها فيسمع اصوات اهل الجنة، فيقول: اي رب ادخلنيها! فيقول: يا ابن آدم! ما يصريني منك؟ ايرضيك ان اعطيك الدنيا ومثلها معها؟ قال: يا رب! اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟ - فضحك ابن مسعود، فقال: الا تسالوني مم اضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ قال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال: من ضحك رب العالمين حين قال: اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟ - فيقول: إني لا استهزئ منك، ولكني على ما اشاء قادر. (وفي رواية: قدير).-" آخر من يدخل الجنة رجل، فهو يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة، فإذا ما جاوزها التفت إليها، فقال: تبارك الذي نجاني منك، لقد أعطاني الله شيئا ما أعطاه أحدا من الأولين والآخرين. فترفع له شجرة، فيقول: أي رب أدنني من هذه الشجرة لأستظل بظلها، وأشرب من مائها، فيقول الله عز وجل: يا ابن آدم! لعلي إن أعطيتكها سألتني غيرها؟ فيقول: لا يا رب، ويعاهده أن لا يسأله غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة هي أحسن من الأولى، فيقول: أي رب أدنني من هذه لأشرب من مائها، وأستظل بظلها، لا أسألك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها؟ - فيقول -: لعلي إن أدنيتك منها تسألني غيرها؟ فيعاهده أن لا يسأله غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها ويشرب من مائها. ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي أحسن من الأوليين، فيقول: أي رب أدنني من هذه لأستظل بظلها وأشرب من مائها، لا أسألك غيرها. فيقول: يا ابن آدم! ألم تعاهدني أن لا تسألني غيرها؟ قال: بلى يا رب، هذه لا أسألك غيرها، وربه يعذره لأنه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فإذا أدناه منها فيسمع أصوات أهل الجنة، فيقول: أي رب أدخلنيها! فيقول: يا ابن آدم! ما يصريني منك؟ أيرضيك أن أعطيك الدنيا ومثلها معها؟ قال: يا رب! أتستهزئ مني وأنت رب العالمين؟ - فضحك ابن مسعود، فقال: ألا تسألوني مم أضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ قال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال: من ضحك رب العالمين حين قال: أتستهزئ مني وأنت رب العالمين؟ - فيقول: إني لا أستهزئ منك، ولكني على ما أشاء قادر. (وفي رواية: قدير).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والے آدمی کی کیفیت یہ ہو گی کہ وہ ( جہنم سے نکلنے کے لیے) چلتے چلتے منہ کے بل گرے گا، آگ اس کے چہرے کو جھلستی رہے گی۔ جب وہ جہنم سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا: وہ ذات بابرکت ہے جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی اور مجھے (تجھ سے آزاد کر کے) جو کچھ عطا کیا وہ پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اتنے میں اسے ایک درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! (پہلے یہ معاہدہ کر کہ) اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں، تو تو کسی اور چیز کا سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے ربّ! وہ اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرے گا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، لیکن (آگے چل کر) اس کا ربّ اس کو معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ (بندہ) صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا، وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور پانی پیئے گا۔ اتنے میں اسے اس درخت کی بہ نسبت ایک اور خوبصورت درخت نظر آئے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے فلاں درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا پانی پی سکوں اور اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ مزید کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے مزید مطالبہ نہ کرنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا؟ اب اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو تو مزید کوئی مطالبہ تو نہیں کرے گا؟ وہ آئندہ کوئی سوال نہ کرنے کا عہد و پیمان کرے گا۔ لیکن اس کا ربّ اسے آئندہ بھی معذور سمجھے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (دوسرے) درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ اس کے سائے میں بیٹھے گا اور وہاں کا پانی پئیے گا۔ اتنے میں اسے پہلے دونوں درختوں سے حسین تیسرا درخت دکھائی دے گا، جو جنت کے دروازے کے قریب ہو گا۔ وہ (عدم صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے) دعا کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں اور مزید میں تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے پہلے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے ربّ! بس یہی مطالبہ ہے، اس کے بعد کسی چیز کی سوال نہیں کروں گا، لیکن اس کا ربّ اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ (آئندہ) ایسی چیزیں دیکھے گا جن پر صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (اس تیسرے درخت کے) قریب کر دے گا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کون سی چیز مجھے تیری دعا قبول کرنے سے روک سکتی ہے؟ ( میں تو قادر مطلق ہوں۔ اے میرے بندے!) اگر میں تجھے دنیا اور اس کی مثل ایک اور دنیا کے برابر دے دوں تو تو راضی ہو جائے گا؟ وہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ (یہ تجھے زیب نہیں دیتا)” سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم لوگ مجھ سے میرے ہنسنے کے بارے میں دریافت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: اچھا، ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ بتاؤ۔ انہوں نے کہا: (در اصل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر اسی طرح ہنسے تھے، صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس بندے نے کہا: (اے اللہ!) تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ ہنس پڑے، اس لیے میں بھی ہنس پڑا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، میں تو جو چاہتا ہوں، وہ کرنے پر قادر ہوں۔“