-" إن عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا، ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض، فدل على رجل (وفي رواية راهب)، فاتاه، فقال: إني قتلت تسعة وتسعين نفسا، فهل لي من توبة؟؟ قال: بعد قتل تسعة وتسعين نفسا؟! قال: فانتضى سيفه فقتله به، فاكمل به مائة، ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض؟ فدل على رجل [عالم]، فاتاه فقال: إني قتلت مائة نفس فهل لي من توبة؟ فقال: ومن يحول بينك وبين التوبة؟! اخرج من القرية الخبيثة التي انت فيها إلى القرية الصالحة قرية كذا وكذا، [فإن بها اناسا يعبدون الله]، فاعبد ربك [ معهم] فيها، [ولا ترجع إلى ارضك فإنها ارض سوء]، قال: فخرج إلى القرية الصالحة، فعرض له اجله في [بعض] الطريق، [فناء بصدره نحوها]، قال: فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، قال: فقال إبليس: انا اولى به، إنه لم يعصني ساعة قط! قال: فقالت ملائكة الرحمة: إنه خرج تائبا [مقبلا بقلبه إلى الله، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط]- فبعث الله عز وجل ملكا [في صورة آدمي] فاختصموا إليه - قال: فقال: انظروا اي القريتين كان اقرب إليه فالحقوه باهلها، [فاوحى الله إلى هذه ان تقربي، واوحى إلى هذه ان تباعدي]، [فقاسوه، فوجدوه ادنى إلى الارض التي اراد [بشبر]، فقبضته ملائكة الرحمة] [فغفر له]. قال الحسن: لما عرف الموت احتفز بنفسه (وفي رواية: ناء بصدره) فقرب الله عز وجل منه القرية الصالحة، وباعد منه القرية الخبيثة، فالحقوه باهل القرية الصالحة".-" إن عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا، ثم عرضت له التوبة، فسأل عن أعلم أهل الأرض، فدل على رجل (وفي رواية راهب)، فأتاه، فقال: إني قتلت تسعة وتسعين نفسا، فهل لي من توبة؟؟ قال: بعد قتل تسعة وتسعين نفسا؟! قال: فانتضى سيفه فقتله به، فأكمل به مائة، ثم عرضت له التوبة، فسأل عن أعلم أهل الأرض؟ فدل على رجل [عالم]، فأتاه فقال: إني قتلت مائة نفس فهل لي من توبة؟ فقال: ومن يحول بينك وبين التوبة؟! اخرج من القرية الخبيثة التي أنت فيها إلى القرية الصالحة قرية كذا وكذا، [فإن بها أناسا يعبدون الله]، فاعبد ربك [ معهم] فيها، [ولا ترجع إلى أرضك فإنها أرض سوء]، قال: فخرج إلى القرية الصالحة، فعرض له أجله في [بعض] الطريق، [فناء بصدره نحوها]، قال: فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، قال: فقال إبليس: أنا أولى به، إنه لم يعصني ساعة قط! قال: فقالت ملائكة الرحمة: إنه خرج تائبا [مقبلا بقلبه إلى الله، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط]- فبعث الله عز وجل ملكا [في صورة آدمي] فاختصموا إليه - قال: فقال: انظروا أي القريتين كان أقرب إليه فألحقوه بأهلها، [فأوحى الله إلى هذه أن تقربي، وأوحى إلى هذه أن تباعدي]، [فقاسوه، فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد [بشبر]، فقبضته ملائكة الرحمة] [فغفر له]. قال الحسن: لما عرف الموت احتفز بنفسه (وفي رواية: ناء بصدره) فقرب الله عز وجل منه القرية الصالحة، وباعد منه القرية الخبيثة، فألحقوه بأهل القرية الصالحة".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کیا میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنی، میرے کانوں نے وہ حدیث سنی اور میرے دل نے اسے یاد کیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے ننانوے افراد قتل کر دیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا۔ اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کی بابت لوگوں سے پوچھا؟ اسے ایک راہب (پادری) کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کہ وہ ننانوے آدمی قتل کر چکا ہے، کیا ایسے فرد کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا: کیا ننانوے افراد کے قتل کے بعد؟ (ایسے شخص کے لیے کوئی توبہ نہیں)۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور اسے قتل کر کے سو کی تعداد پوری کر لی۔ پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے لوگوں سے اہل زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اس کے لیے ایک عالم کی نشاندہی کی گئی، وہ اس کے پاس گیا اور کہا میں سو افراد قتل کر چکا ہوں، کیا میرے لیے توبہ (کی کوئی گنجائش) ہے۔ اس نے کہا تیرے اور تیری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ لیکن تو اس طرح کر کہ اس خبیث بستی سے نکل کر فلاں فلاں کسی نیک بستی کی طرف چلا جا۔ کیونکہ وہاں کے لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہ یہ بری سر زمین ہے۔ وہ نیک بستی کی طرف چل پڑا، لیکن راستے میں اسے موت آ گئی، وہ اپنے سینے کے سہارے سرک کر پہلی زمین سے دور ہو کر (تھوڑا سا) دوسری طرف ہو گیا۔ (اسے لینے کے لیے) رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آ گئے اور ان کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی تھی۔ لیکن ملائکہ رحمت نے کہا: یہ تائب ہو کر آیا تھا اور دل کی پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا تھا اور ملائکہ عذاب نے کہا: اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو ایک آدمی کی شکل میں بھیجا۔ انہوں نے اس کے سامنے یہ جھگڑا پیش کیا۔ اس نے کہا دیکھو کہ کون سی بستی اس کے قریب ہے، اسی بستی والوں سے اس کو ملا دیا جائے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آ رہا تھا) حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور ارض صالحین (جس کی طرف وہ جا رہا تھا) حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔ جب انہوں نے اس کی پیمائش کی تو جس زمین کی طرف وہ جا رہا تھا، اسے (دوسری کی بہ نسبت) ایک بالشت زیادہ قریب پایا۔ پس رحمت کے فرشتے اسے لے گئے اور اسے بخش دیا گیا۔“ حسن راوی کہتے ہیں: جب اسے موت کا علم ہوا تو وہ ( نیک بستی کی طرف) سکڑ گیا، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے سینے کے سہارے (نیک بستی کی طرف) سرک گیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اسے قریۂ صالحہ کے قریب کر دیا اور قریۂ خبیثہ سے دور کر دیا، تو ان فرشتوں نے اسے نیک بستی والے لوگوں میں شامل کر دیا۔“