- (إن ثلاثة في بني إسرائيل: ابرص، واقرع، واعمى، فاراد الله ان يبتليهم، فبعث إليهم ملكا، فاتى الابرص، فقال: اي شيء احب إليك؟ قال: لون حسن، وجلد حسن، ويذهب عني الذي قد قذرني الناس. قال: فمسحه، فذهب عنه قذره، واعطي لونا حسنا، وجلدا حسنا، قال: فاي المال احب إليك، قال: الإبل- او قال: البقر؛ شك إسحاق؛ إلا ان الابرص او الاقرع قال احدهما: الإبل، وقال الآخر: البقر-، قال: فاعطي ناقة عشراء، فقال: بارك الله لك فيها! قال: فاتى الاقرع فقال: اي شيء احب إليك؟ قال: شعر حسن، ويذهب عئي هذا الذي قذرني الناس، قال: فمسحه، فذهب عنه، واعطي شعرا حسنا، قال: فاي المال احب إليك؟ قال: البقر، فاعطي بقرة حاملا، فقال: بارك الله لك فيها! قال: فاتى الاعمى، فقال: اي شيء احب إليك؟ قال: ان يرد الله إلي بصري، فابصر به الناس، قال: فمسحه، فرد الله إليه بصره، قال: فاي المال احب إليك؟ قال: الغنم، فاعطي شاة والدا، فانتج هذان، وولد هذا، قال: فكان لهذا واد من الإبل، ولهذا واد من البقر، ولهذا واد من الغنم. قال: ثم إنه اتى الابرص في صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين، قد انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، اسالك- بالذي اعطاك اللون الحسن، والجلد الحسن، والمال- بعيرا اتبلغ عليه في سفري، فقال: الحقوق كثيرة، فقال له: كاني اعرفك، الم تكن ابرص، يقذرك الناس؟! فقيرا فاعطاك الله؟! فقال: إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر! فقال: إن كنت كاذبا؛ فصيرك الله إلى ما كنت! قال: واتى الاقرع في صورته، فقال له مثل ما قال لهذا، ورد عليه مثل ما رد على هذا، فقال: إن كنت كاذبا؛ فصيرك الله إلى ما كنت! قال: واتى الاعمى في صورته وهيئته، فقال: رجل مسكين، وابن سبيل، انقطعت بي الحبال في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، اسالك- بالذي رد عليك بصرك- شاة اتبلغ بها في سفري. فقال: قد كنت اعمى، فرد الله إلي بصري، فخذ ما شئت، ودع ما شئت، فوالله! لا اجهدك اليوم شيئا اخذته لله! فقال: امسك مالك؛ فإنما ابتليتم، فقد رضي [الله] عنك، وسخط على صاحبيك).- (إنّ ثلاثةً في بني إسرائيل: أبرص، وأقرع، وأعمى، فأراد الله أن يبتليهم، فبعث إليهم ملكاً، فأتى الأبرص، فقال: أيّ شيء أحبّ إليك؟ قال: لونٌ حسنٌ، وجلدٌ حسنٌ، ويذهب عني الذي قد قذرني الناس. قال: فمسحه، فذهب عنه قذره، وأعطي لوناً حسناً، وجلداً حسناً، قال: فأي المال أحب إليك، قال: الإبل- أو قال: البقر؛ شك إسحاق؛ إلا أن الأبرص أو الأقرع قال أحدُهما: الإبلُ، وقال الآخرُ: البقرُ-، قال: فأعطي ناقةٌ عُشراءَ، فقال: بارك الله لك فيها! قال: فأتى الأقرع فقال: أي شيء أحبّ إليك؟ قال: شعرٌ حسنٌ، ويذهبُ عئي هذا الذي قذرني الناسُ، قال: فمسحه، فذهب عنه، واُعطي شعراً حسناً، قال: فأي المال أحبّ إليك؟ قال: البقرُ، فأعطي بقرةً حاملاً، فقال: بارك الله لك فيها! قال: فأتى الأعمى، فقال: أي شيء أحبّ إليك؟ قال: أن يردّ الله إليّ بصري، فأبصر به الناس، قال: فمسحه، فردّ الله إليه بصره، قال: فأي المال أحبّ إليك؟ قال: الغنم، فأعطي شاةً والداً، فأنتج هذان، وولد هذا، قال: فكان لهذا واد من الإبل، ولهذا واد من البقر، ولهذا واد من الغنم. قال: ثم إنّه أتى الأبرص في صورته وهيئته، فقال: رجلٌ مسكين، قد انقطعت بي الحبالُ في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك- بالذي أعطاك اللون الحسن، والجلد الحسن، والمال- بعيراً أتبلغ عليه في سفري، فقال: الحقوقُ كثيرةٌ، فقال له: كأني أعرفك، ألم تكن أبرص، يقذرك الناس؟! فقيراً فأعطاك الله؟! فقال: إنّما ورثت هذا المال كابراً عن كابر! فقال: إن كنت كاذباً؛ فصيرك الله إلى ما كنت! قال: وأتى الأقرع في صورته، فقال له مثل ما قال لهذا، وردّ عليه مثل ما رد على هذا، فقال: إن كنت كاذباً؛ فصيرك الله إلى ما كنت! قال: وأتى الأعمى في صورته وهيئته، فقال: رجلٌ مسكين، وابن سبيل، انقطعت بي الحبالُ في سفري، فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك- بالذي ردّ عليك بصرك- شاة أتبلغ بها في سفري. فقال: قد كنتُ أعمى، فرد الله إلي بصري، فخذ ما شئت، ودع ما شئت، فوالله! لا أجهدك اليوم شيئاً أخذته لله! فقال: أمسك مالك؛ فإنما ابتليتم، فقد رضي [الله] عنك، وسخط على صاحبيك).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل میں سے تین آدمی تھے، ایک برص (سفید داغوں) کے مرض میں مبتلا تھا، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کا ارادہ فرمایا، پس ان کی طرف ایک فرشتہ پہلے برص والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا، تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ محبوب ہے؟ اس نے جواب دیا: اچھا رنگ، خوبصورت جسم، نیز یہ بیماری مجھ سے دور ہو جائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا، جس سے (اللہ کے حکم سے) اس کی گھن والی بیماری دور ہو گئی اور اسے خوبصورت رنگ دے دیا گیا۔ فرشتے نے اس سے پھر پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے جواباً اونٹ یا گائے کہا۔ (اس کی بابت اسحاق راوی کو شک ہوا، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ برص والے اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کا ذکر کیا اور ایک نے گائے کا)۔ چنانچہ اسے آٹھ دس مہینے کی گابھن اونٹنی دیدی گئی اور فرشتے نے اسے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت عطا فرمائے۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور پوچھا: تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اچھے بال، یہ میرا (گنجاپن) ختم ہو جائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا، جس سے اس کا گنجاپن دور ہو گیا اور اسے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) خوبصورت بال عطا کر دیے گئے۔ فرشتے نے اس سے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: گائے۔ چنانچہ اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے ان اس میں برکت عطا فرمائے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اس سے پوچھا، تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی واپس لوٹا دے، پس میں لوگوں کو دیکھوں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، پس اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی بحال کر دی، فرشتے نے اس سے پوچھا: تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: بکریاں۔ پس اسے بچہ جننے والی ایک بکری دے دی گئی۔ پس سابقہ دونوں (برص والے اور گنجے) کے ہاں بھی دونوں جانوروں (اونٹنی اور گائے) کی نسل خوب بڑھی اور اس نابینا کے ہاں بھی بکری نے بچے دیے۔ سو (برص والے کے ہاں) ایک وادی اونٹوں کی، گنجے کے ہاں ایک وادی گائیوں کی اور اس اندھے کے ہاں ایک وادی بکریوں کی ہو گئی۔ اب پھر فرشتہ برص والے کے پاس گیا، اس کی صورت اور ہیئت میں آیا اور کہا کہ میں مسکین آدمی ہوں، سفر میں میرے وسائل ختم ہو گئے ہیں، آج میرے وطن پہنچنے کا کوئی وسیلہ، اللہ تعالیٰ اور پھر تیرے علاوہ نہیں، اس لیے میں تجھ سے اس ذات کے نام سے جس نے تجھے اچھا رنگ، خوبصورت جسم اور مال عطا کیا ہے، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں، جس کے ذریعے میں اپنے سفر میں منزل مقصود تک پہنچ جاؤں۔ اس نے جواب دیا: (میرے ذمے پہلے ہی) بہت سے حقوق ہیں، یہ سن کر فرشتے نے اس سے کہا: گویا کہ میں تجھے پہچانتا ہوں، کیا تو وہی نہیں کہ جس کے جسم پر سفید داغ تھے، لوگ تجھ سے گھن کرتے تھے، تو فقیر تھا، اللہ تعالیٰ نے تجھے مال سے نواز دیا؟ اس نے کہا: یہ مال تو مجھے باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے، فرشتے نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے، جیسا کہ تو تھا۔ اب فرشتہ گنجے کے پاس اس کی پہلی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو (برص والے) کو کہا تھا اور اس گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو برص والے نے دیا تھا، جس پر فرشتے نے اسے بھی بددعا دی، کہ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے ویسا ہی کر دے، جیسا کہ تو پہلے تھا۔ فرشتہ (پھر) اندھے کے پاس آیا اور کہا کہ میں مسکین اور مسافر آدمی ہوں، سفر کے وسائل ختم ہو گئے ہیں، آج میں نے وطن پہنچنا، اللہ تعالیٰ کی مدد، پھر تیری مالی اعانت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے میں تجھ سے اس ذات کے نام سے، جس نے تیری بینائی تجھ پر لوٹا دی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے سے میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں۔ اندھے نے کہا: بلاشبہ میں اندھا تھا، اللہ تعالیٰ نے میری بینائی بحال کر دی (تیرے سامنے بکریوں کا ریوڑ ہے، ان میں سے) جو چاہے لے لے اور جو چاہے چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ کی قسم! آج میں، جو تو اللہ کے لیے لے گا، اس میں تجھ سے کوئی جھگڑا نہیں کروں گا، یہ سن کر فرشتے نے اسے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھو، بیشک تمہیں آزمایا گیا ہے ( جس میں تو کامیاب رہا) پس اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی ہو گیا ( اور تیرے دونوں ساتھی ناکام رہے) ان پر تیرا رب ناراض ہو گیا۔“