-" لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاء الداعي لاجبته، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاساله ما بال النسوة اللاتي قطعن ايديهن إن ربي بكيدهن عليم) * ورحمة الله على لوط إن كان لياوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو ان لي بكم قوة او آوي إلى ركن شديد) *، وما بعث الله من بعده من نبي إلا في ثروة من قومه".-" لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاء الداعي لأجبته، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن إن ربي بكيدهن عليم) * ورحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد) *، وما بعث الله من بعده من نبي إلا في ثروة من قومه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں (فوراً) اس کی بات قبول کرتا، لیکن جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے تو کہا «ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ»”اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکر سے واقف ہے۔“(۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے، وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ»”کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔“(۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔“