- (مرحبا بطالب العلم، [إن] طالب العلم لتحفه الملائكة وتظله باجنحتها، ثم يركب بعضهم بعضا، حتى يبلغوا السماء الدنيا؛ من حبهم لما يطلب).- (مرحباً بطَالبِ العلمِ، [إن] طالبَ العِلم لتحفُّه الملائكةُ وتظلٌّه بأجنحتِها، ثمّ يركبُ بعضُهم بعضاً، حتّى يبلغُوا السَّماء الدُّنيا؛ من حبِّهم لما يَطلُب).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حصول علم کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طالب علم کو مرحبا، بےشک فرشتے طالب علم کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور (کثرت تعداد کی وجہ سے) ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہوتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ وہ اس چیز سے محبت کرتے ہیں، جس کو طالب علم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔“ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مابین سفر میں ہی رہتے ہیں، آپ ہمیں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں فتوی دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات (تک مسح کرنے کی گنجائش ہے)۔“