-" يا ابا تراب! الا احدثكما باشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: احيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى تبتل هذه من الدم - يعني لحيته".-" يا أبا تراب! ألا أحدثكما بأشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: أحيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى تبتل هذه من الدم - يعني لحيته".
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ غزوہ ذی العشیرہ میں رفیق تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے اور قیام کیا تو ہم نے بنو مدلج قبیلے کے کچھ لوگوں کو دیکھاکہ وہ کھجوروں میں اپنے ایک چشمے میں کام کر رہے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: ابوالیقظان! کیا خیال ے اگر ہم ان کے پاس چلے جائیں اور دیکھیں کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ سو ان کے پاس چلے گئے اور کچھ دیر تک ان کا کام دیکھتے رہے، پھر ہم پر نیند غالب آ گئی۔ میں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھجوروں کے ایک جھنڈ میں چلے گئے اور مٹی میں لیٹ کر سو گئے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاؤں کے ساتھ حرکت دے کر جگایا اور ہم مٹی میں غبار آلود ہو چکے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر مٹی دیکھی تو فرمایا: ”ایے ابوتراب! ( یعنی مٹی والے)“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے لیے دو بدبخت ترین مردوں کی نشاندہی نہ کروں؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احیمر ثمودی، جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ آدمی جو (اے علی!) تیرے سر پر مارے گا، حتیٰ کہ تیری (داڑھی) خون سے بھیگ جائے گی۔“