-" كل نائحة تكذب إلا ام سعد".-" كل نائحة تكذب إلا أم سعد".
محمود بن لبید کہتے ہیں کہ جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں زخم لگ اور وہ بڑھ گیا۔ لوگوں نے ان کو رفیدہ نامی عورت کے پاس منتقل کر دیا، کیونکہ وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس سے گزرتے تو پوچھتے: ”تو نے کیسی شام پائی؟“ اور جب صبح کے وقت آتے تو کہتے ”تو نے کیسی صبح پائی؟“ وہ اپنی صورتحال واضح کرتے۔ یہاں تک کہ وہ رات آ گئی جس میں ان کی قوم نے انہیں وہاں سے منتقل کر دیا اور انہیں اٹھا کر بنو عبدالاشھل کے گھروں میں لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب عادت ان کا حال دریافت کرنے کے لیے تشریف لائے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ انہیں لے گئے ہیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل دیے اور ہم بھی آپ کے ساتھ ہو لیے، آپ اتنی تیزی سے چلے کہ ہمارے جوتوں کے تسمے ٹوٹ گئے اور ہماری چادریں گردنوں سے گرنے لگ گئیں، صحابہ نے آپ سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو ہم کو تھکا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کو غسل دینے میں فرشتے ہم سے سبقت نہ لے جائیں، جیسا کہ وہ اس سے پہلے خظلہ کو غسل دے چکے ہیں۔ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تک پہنچے تو ان کو غسل دیا جا رہا تھا اور ان کی ماں رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی: او سعد! تیری ماں کی ہلاکت (تیری) عقلمندی اور سخاوت ( کے گم ہو جانے کی وجہ سے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نوحہ کرنے والی جھوٹ بولتی ہے، ماسوائے ام سعد کے۔“ پھر آپ اس کی میت کو لے کر نکلے، بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: سعد کی میت بہت ہلکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہلکی کیوں نہ ہو، کثیر تعداد میں فرشتے اترے، اتنے فرشتے کبھی بھی نازل نہیں ہوئے، وہ تمہارے ساتھ سعد کی میت کو اٹھا رہے تھے۔“ آپ نے فرشتوں کی تعداد بھی بتلائی تھی، لیکن مجھے یاد نہ رہی۔