ـ (كان إذا دعا دعا ثلاثا، وإذا سال سال ثلاثا).ـ (كان إذا دعَا دعَا ثلاثاً، وإذا سألَ سألَ ثلاثاً).
سیدنا عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے حواری وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک دن پہلے کچھ اونٹنیاں ذبح کی گئی تھیں۔ ابوجہل نے (موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) کہا: کون ہے جو بنو فلاں کی ذبح شدہ اونٹنیوں کی اوجھڑیاں لائے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب سجدہ کرے تو اس کے اوپر رکھ دے؟ (جواباً) ایک بدبخت ترین شخص اٹھا، اوجھڑیاں اٹھا کر لایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اوپر رکھ دیں۔ (یہ دیکھ کر) وہ تکلفاً ہنسنے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، میں کھڑا (سب کچھ) دیکھ رہا تھا، میں نے کہا: اگر میں صاحب قدرت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے ہٹا دیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں پڑے رہے اور سر نہ اٹھایا۔ کسی آدمی نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جاکر اطلاع دی۔ وہ، جو ابھی تک بچی تھیں، آئیں، انہیں ہٹایا، پھر ان پر متوجہ ہوئیں اور انہیں برا بھلا کہا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو بآواز بلند ان کے لیے بددعائیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بددعا کرتے تو تین دفعہ کرتے اور اسی طرح جب ( اللہ تعالیٰ سے) سوال کرتے تو تین دفعہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! قریش کی گرفت کر۔“(یہ بددعا تین دفعہ کی)۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو ان کی ہنسی رک گئی اور وہ خوفزدہ ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن عامر کا مؤاخذہ (اور گرفت) کر۔“ ایک ساتویں آدمی کا نام بھی لیا تھا، مجھے وہ یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا! میں نے ان سب کو بدر والے دن پچھڑا ہوا دیکھا، پھر انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔