-" قوموا إلى سيدكم فانزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: انزلوه، فانزلوه".-" قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی۔ میں نے چلتے ہوئے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی۔ جب میں نے ادھر توجہ کی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد گزرے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں اس سے سعد کے اعضائے جسم (زخمی نہ ہو جائیں)۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے: ”ذرا ٹہیرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا۔“ وہ کہتی ہیں: میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی، وہاں (پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا، اس نے خود پہنا ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ بخدا! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ مجھے ملامت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں۔ ادھر جب اس بندے نے خود اتارا، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے۔ اس نے کہا: عمر! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک قریشی مشرک، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے، نے سعد کو تیر مارا اور کہا: لو، میں تو ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی۔ سعد نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی: اے اللّٰہ! مجھے (اس وقت تک) موت سے بچانا، جب تک بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے۔ پس ان کے زخم (سے بہنے والا خون) رک گیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (تند و تیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہوا، اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عینیہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی۔ بنو قریظہ ( کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے، اسلحہ اتارا اور سعد کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام پہنچ گئے، ان کے دانتوں پر غبار چمک رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ( اے محمد!) آپ نے اسلحہ اتار دیا تھا؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک نہیں اتارا۔ چلیے بنو قریظہ کی طرف اور ان سے قتال کیجئیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی خاطر اسلحہ زیب تن کیا اور لوگوں میں کوچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے اور بنو غنم، جو مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے، کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: ”کون تمہارے پاس سے گزرا ہے؟“ انہوں نے کہا: دحیہ کلبی گزرے ہیں، دراصل سیدنا دحیہ کلبی کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبرائیل علیہ السلام کے مشابہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، جو پچیس دن تک جاری رہا۔ جب ان پر محاصرے نے شدت اختیار کی اور ان کی تکلیف بڑھ گئی، تو ان سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ انہوں نے ابولبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ کیا، اس نے اشارہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تو قتل ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا: تو پھر سعد بن معاذ کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد بن معاذ کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔“ پس انہوں نے تسلیم کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلا بھیجا۔ سو ایک گدھا لایا گیا، اس پر کھجور کے درخت کے چھال کی پالان تھی، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو اس پر سوار کر دیا گیا، ان کی قوم نے ان کو گھیر لیا اور کہا: اے ابو عمرو! وہ (بنو قریظہ والے) آپ کے حلیف بھی ہیں، معاہد بھی ہیں، شکست و ریخت والے بھی ہیں اور تم جانتے ہو کہ وہ ایسے ایسے بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے نہ ان کا جواب دیا اور نہ ان کی طرف توجہ کی، (چلتے گئے)، جب ان کے گھروں کے قریب جا پہنچے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں۔ ابوسعید کہتے ہیں: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اٹھو) اپنے سردار کی طرف جاؤ اور ان کو (سواری سے) اتارو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا سردار تو اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اتارو۔“ پس انہوں نے ان کو اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے، ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مالوں کو (مسلمانوں میں) تقسیم کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے تو وہی فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فیصلہ تھا۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے ابھی تک اپنے نبی کی قسمت میں قریشیوں سے لڑنا رکھا ہوا ہے، تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر ان کے مابیں جنگ و جدل ختم ہو گیا ہے، تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ وہ کہتی ہیں: ان کا زخم پھوٹ پڑا، حالانکہ وہ مندمل ہو چکا تھا اور وہاں انگوٹھی کی طرح کا نشان نظر آتا تھا اور وہ اس خیمہ میں واپس چلے گئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے نصب کروایا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما وہاں پہنچ گئے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، میں اپنے حجرے میں بیٹھی ہوئی عمر اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے رونے کی آواز پہچان رہی تھی، وہ (صحابہ کرام) آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ”وہ آپس میں رحمدل ہیں“۔ علقمہ نے پوچھا: امی جان! اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: کسی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے تھے، لیکن جب وہ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے تھے۔