-" ملعون من سال بوجه (الله) وملعون من يسال بوجه الله ثم منع سائله ما لم يساله هجرا".-" ملعون من سأل بوجه (الله) وملعون من يسأل بوجه الله ثم منع سائله ما لم يسأله هجرا".
یزید بن مہلب کہتے ہیں: جب میں خراسان کا حاکم بنا تو میں نے کہا: مجھے ایسے آدمی کے پاس لے جاؤ جو خصائل خیر سے بدرجہ اکمل متصف ہو۔ سو مجھے ابوبردہ بن ابوموسی اشعری کے پاس لایا گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انھیں فائق پایا اور جب ان سے کلام کی تو ان کے باطن کو ظاہر سے افضل پایا۔ میں نے کہا: میں تجھے اپنی فلاں فلاں ڈیوٹی کا امیر بناتا ہوں۔ انہوں نے معذرت کرنا چاہی، لیکن میں نے ان کی معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایک حدیث بیان نہ کروں جو میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ میں نے کہا: بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس آدمی نے ایسے کام کی ذمہ داری قبول کی، جس کا وہ اہل نہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے۔“ امیر صاحب! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں، جو آپ مجھے سونپنا چاہتے ہیں . میں نے اسے کہا: تیری اس ساری گفتگو نے مجھے مزید آمادہ کیا ہے اور رغبت دلائی ہے کہ یہ عہدہ تجھے ہی سونپا جائے، لہذا جا اور یہ ذمہ داری سنبھال لے، اب میں تجھے معاف نہیں کروں گا. یہ سن کر وہ چلے گئے، کچھ وقت وہاں ٹھہرے رہے (اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے)۔ ایک دن امیر یزید کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ جب اجازت ملی تو انہوں نے آ کر کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایسی حدیث بیان نہ کروں جو مجھے میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی؟ انہوں نے کہا: بیان کیجئے۔ ابوبردہ نے کہا: وہ حدیث یہ ہے: ”وہ آدمی ملعون ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر سوال کیا اور وہ بھی ملعون ہے جس سے اللہ کی ذات کے واسطے سے سوال کیا گیا اور اس نے سائل کو کچھ نہ دیا، الا یہ کہ وہ کسی بیہودہ چیز کا سوال کرے۔“ اب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اے امیر! اس عہدے کے سلسلہ میں میری معذرت قبول کرو، پس انہوں نے ان کی معذرت قبول کر لی۔