-" والله لقد بعث الله النبي صلى الله عليه وسلم على اشد حال بعث عليها فيه نبي من الانبياء في فترة وجاهلية، ما يرون ان دينا افضل من عبادة الاوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل وفرق بين الوالد وولده حتى إن كان الرجل ليرى والده وولده او اخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه للإيمان، يعلم انه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه وهو يعلم ان حبيبه في النار، وإنها للتي قال الله عز وجل: * (الذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين) *".-" والله لقد بعث الله النبي صلى الله عليه وسلم على أشد حال بعث عليها فيه نبي من الأنبياء في فترة وجاهلية، ما يرون أن دينا أفضل من عبادة الأوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل وفرق بين الوالد وولده حتى إن كان الرجل ليرى والده وولده أو أخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه للإيمان، يعلم أنه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه وهو يعلم أن حبيبه في النار، وإنها للتي قال الله عز وجل: * (الذين يقولون ربنا هب لنا من أزواجنا وذرياتنا قرة أعين) *".
عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ایک دن ہم سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ اس نے سیدنا مقداد کو دیکھ کر کہا: ان دو آنکھوں کے لئے خوشخبری ہے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا، ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے دیکھا، ہم بھی دیکھتے اور جہاں جہاں آپ حاضر ہوئے، ہم بھی وہاں پہنچتے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہوتی)۔ سیدنا مقداد غصہ میں آ گئے . مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس آدمی نے خیر و بھلائی والی بات ہی کی ہے، (یہ غصہ کیوں ہو رہے ہیں)؟ اتنے میں وہ اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون سی چیز بندے کو اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ ایسے مشہد کی تمنا کرے، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے غائب رکھا ہو، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس وقت ہوتا تو کس حالت میں ہوتا؟ (ذرا غور کرو) ایسے لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے نتھنوں کے بل جہنم میں گرا دیا، انہوں نے آپ کی دعوت قبول کی نہ آپ کی تصدیق کی۔ کیا تم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا کیا تو تم اپنے رب کو پہنچانتے تھے، نبی کی تعلم کی تصدیق کرتے تھے اور دوسروے لوگوں کی تکالایف تمہیں کفایت کر گئیں؟ (یعنی تم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور تم سے پہلے والے لوگوں نے ابتلا و آزمائش میں پڑ کر تمہارے لئے دین کو محفوظ اور غالب کر دیا)۔ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، تو اہل حق کے لئے حالات اتنے سنگین تھے، کہ ماضی کے فتروں اور جاہلیتوں میں تشریف لانے والے انبیائے کرام میں ان کی مثال نہیں ملتی، مخالف لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بتوں کی عبادت افضل دین ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان مجید لے کر آئے، جس نے حق و باطل میں امتیاز کیا اور والد اور اولاد میں ایسی تفریق ڈال دی، کہ آدمی اپنے والد، اپنے بیٹے یا اپنے بھائی کو کافر سمجھنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دئیے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی ہلاک ہو گیا تو وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا اور اسے اس طرح سکون کیسے ملے گا کہ اس کا محبوب جہنم میں ہو اور یہی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔“(سورہ الفرقان: ۷۴)